Maktaba Wahhabi

868 - 868
سوال:کیا باپ کے لیے جائز ہے کہ اپنی بیٹی کے حق مہر میں سے کچھ لے لے؟ جواب:باپ کو حق حاصل ہے کہ بیٹی کے حق مہر میں سے جو چاہتا ہے لے سکتا ہے،خواہ اس کا اکثر حصہ ہی کیوں نہ ہو۔کیونکہ باپ بیٹی کے مال کا مالک بن سکتا ہے۔تو حق مہر کا کیوں نہیں بن سکتا؟ واللہ علم۔(عبدالرحمٰن السعدی) سوال:کیا آدمی کے لیے جائز ہے کہ اپنی بیٹی یا بہن کے حق مہر سے نکاح کر لے؟ جواب:بیٹی یا بہن کا حق مہر اس کا ذاتی مال اور ملکیت ہوتی ہے۔اگر وہ اپنی خوشی اور اختیار سے ہدیہ کر دے،سارے کا سارا ہدیہ دے دے یا اس کا کچھ حصہ،اور وہ شرعی لحاظ سے قابل اعتبار حالت اور کیفیت میں ہو تو اس کا لینا جائز ہے۔اور گر وہ نہ دے تو اس کا لینا،کل ہو یا کم،جائز نہیں ہے،کیونکہ یہ خاص اس کا استحقاق ہے۔البتہ باپ کو حق پہنچتا ہے کہ اس میں سے اس قدر لے لے جو اس کے لیے نقصان کا باعث نہ ہو۔مگر وہ یہ مال اپنے کسی بچے کو نہیں دے سکتا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: (إِنَّ أَطْيَبَ مَا أَكَلْتُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ،وَإِنَّ أَوْلَادَكُمْ مِنْ كَسْبِكُمْ) [1] "بہترین کمائی جو تم کھاتے ہو وہی ہے جو تمہاری کمائی ہو،اور تمہاری اولاد تمہاری کمائی ہی ہے۔" (مجلس افتاء) سوال:کیا قاضی شہر کو حق حاصل ہے کہ عورت کے بھائی کو یا کسی دوسرے شخص کو اس عورت کی اجازت کے بغیر اس کا وکیل بنا دے،بالخصوص جن کی وکالت پر وہ راضی نہ ہو؟ جواب:اگر عورت خود عاقل بالغ اور اپنے مالی معاملات کی بخوبی سمجھ بوجھ رکھتی ہو کہ خریدوفروخت میں خسارے یا حرام میں یا بے فائدہ خرچ کرنے سے وہ پرہیز کرتی ہو تو اس پر کسی کو وکیل بنانا جائز نہیں ہے۔(محمد بن ابراہیم) اموال یتامیٰ سوال:یتیموں کے ولی اور سرپرست کے لیے کب جائز ہوتا ہے کہ ان کے مال ان کے حوالے اور سپرد کر دے؟ جواب:یتیموں کے مال ان کے حوالے اور سپرد اسی وقت کرنے چاہییں جب واضح ہو کہ اب یہ اپنے مالی تصرفات کو خوب سمجھنے لگے ہیں اور اسے ضائع اور حرام میں خرچ نہیں کریں گے،اور ان کا محض بالغ ہو جانا شرط نہیں ہے۔بلکہ بلوغت کے بعد مالی معاملات میں دانا ہونا شرط ہے۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
Flag Counter