Maktaba Wahhabi

85 - 155
مذکورہ جواب کے ذریعے یہ وضاحت فرمادی کہ یہ امر توقیفی ہے، جس میں عقل و قیاس کا دخل نہیں ہے، اس میں شریعت کے حکم کی اتباع کی جائے گی۔ حالت حیض میں روزے کی ممانعت کا راز: شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ مجموع الفتاویٰ (۱۵/ ۲۵۱) میں لکھتے ہیں : ’’ حیض کی وجہ سے آنے والے خون میں خون کا نکلنا پایا جاتاہے، جب کہ حائضہ کے لیے ممکن ہے کہ حیض کے ان اوقات کے علاوہ دیگر اوقات میں روزہ رکھے، جن میں خون کا نکلنا نہیں پایا جاتا ہے، لہٰذا ایسی صورت میں اس کا روزہ رکھنا معتدل ہوگا، کیونکہ اس میں جسم کو تقویت پہنچانے والے بلکہ جسم کے اصل مادے کا نکلنا نہیں پایا جاتا ہے، حالت حیض میں روزہ رکھنے سے وجوبی طور پر لازم آئے گا کہ جسم کا اصل مادہ بھی خارج ہو جو اس کے جسم کی کمی اور خود اس کے ضعف کا سبب بنتا ہے اور ساتھ ہی روزے کا حد اعتدال سے بھی خروج لازم آئے گا۔ خواتین کو اسی بناء پر اوقاتِ حیض کے علاوہ دیگر اوقات میں روزہ رکھنے کا حکم دیا گیا ہے۔ ‘‘ حمل و رضاعت کی حالت میں افطار کا حکم: حالت حمل اور حالت رضاعت (یعنی دودھ پلانے کی حالت) میں روزہ رکھنے سے خود عورت کو یا بچہ کو یا ایک ساتھ دونوں کو نقصان اور ضرر لاحق ہوسکتا ہے، لہٰذا عورت ان دونوں حالتوں میں افطار کرسکتی ہے۔ (یعنی روزہ چھوڑ سکتی ہے) اگر ضرر (نقصان) جس کے پیش نظر اس نے روزہ ترک کیا ہے، محض بچے کو لاحق تھا،تو چھوڑے ہوئے روزوں کی قضا کرے گی اور ہر دن کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھلائے گی اور اگر ضرر عورت کو بھی لاحق تھا تو اس پر صرف قضاء ضروری ہے، کیونکہ آیت: ﴿وَعَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ ﴾ (البقرۃ:۱۸۴)
Flag Counter