Maktaba Wahhabi

126 - 227
یا امانت دیا ہوا مال پالے، تو وہ اس کا زیادہ حق دار ہے۔] امیر المؤمنین حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے بھی اس بارے میں یہی فیصلہ دیا۔ امام بخاری نے سعید بن المسیب کے حوالے سے نقل کیا ہے، کہ انہوں نے بیان کیا: ’’ قَضَی عُثْمَانُ رضی اللّٰه عنہ مَنِ اقْتَضَی مِنْ حَقِّہِ قَبْلَ أَنْ یُفْلِسَ فَھُوَ لَہُ، وَمَنْ عَرَفَ مَتَاعَہَ بِعَیْنِہِ فَھُوَ أَحَقُّ بِہٖ۔ ‘‘[1] ’’ عثمان رضی اللہ عنہ نے فیصلہ کیا:’’ جو شخص[دوسرے شخص کے]دیوالیہ ہونے سے پہلے اپنا حق لے لے، تو وہ اس کا ہے اور جو کوئی اپنا ہی سامان[اس کے دیوالیہ ہونے کے بعد]پہچان لے، تو وہ دوسروں سے زیادہ، اس کا حق دار ہے۔ ‘‘ (۲) رہن شدہ چیز کی فروختگی قرض کی واپسی کو یقینی بنانے کے لیے ایک شرعی تدبیر یہ ہے، کہ قرض لینے والا اپنی کسی چیز کو ادائیگی قرض کے لیے بطورِ ضمانت قرض خواہ کے پاس رکھے۔ اس کو شرعی اصطلاح میں[الرہن]کہا جاتا ہے اور اس کا لغوی معنی[روکنا]اور شرعی معنی:’’ جَعْلُ مَالٍ وَثِیْقَۃً عَلیٰ دَیَنٍ۔‘‘[بطورِ قرض دیئے ہوئے مال کے لیے ضامن بنانا]کے ہیں۔ [2] رہن کی مشروعیت: رہن کی مشروعیت کتاب و سنت دونوں سے ثابت ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: وَإِنْ كُنْتُمْ عَلَى سَفَرٍ وَلَمْ تَجِدُوا كَاتِبًا فَرِهَانٌ مَقْبُوضَةٌ [3] ’’ اور اگر تم کسی سفر میں ہو اور کوئی لکھنے والا نہ پاؤ، تو گروی ہے قبضے میں
Flag Counter