Maktaba Wahhabi

136 - 227
اوزاعی، مالک، شافعی اور احمد کا یہی مذہب ہے۔ نخعی، حسن بصری اور ابوحنیفہ نے کہا ہے:’’ حاکم کو[الحجر]لگانے اور اس کے ہاں موجود مال میں استعمال کے حق سے محروم کرنے کا اختیار نہیں۔ اس کی بجائے حاکم اس کو گرفتار کرے گا، تاکہ وہ اپنا مال فروخت کرکے ان کا پورا پورا حق ادا کرے۔ ان حضرات کے خلاف جمہور کی دلیل معاذ رضی اللہ عنہ کے مفلس ہونے والی سابقہ حدیث ہے۔ عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے جہینہ قبیلہ کے شخص کے متعلق بھی اسی طرح فیصلہ فرمایا۔ ‘‘ ایسے مقروض کے صدقہ کی واپسی: اس قسم کا مقروض اگر اپنا مال بطورِ صدقہ دے، تو وہ بھی قبول نہیں کیا جائے گا۔ امام بخاری تحریر کرتے ہیں: [بَابٌ لَا صَدَقَۃَ إِلَّا عَنْ ظَھْرِ غِنًی۔ وَمَنْ تَصَدَّقَ وَھُوَ مُحْتَاجٌ، أَوْ أَھْلُہُ مُحْتَاجٌ، أَوْ عَلَیْہِ دَیْنٌ، فَالدَّیْنُ أَحَقُّ أنْ یُقْضَی مِنَ الصَّدَقَۃِ وَالْعِتْقِ وَالْہِبَۃِ، وَھُوَ رَدٌّ عَلَیْہِ، لَیْسَ لَہُ أَنْ یُتْلِفَ أَمْوَالَ النَّاسِ۔ وَقَالَ النَّبِيُّ صلي اللّٰه عليه وسلم:’’ وَمَنْ أَخَذَ أَمْوَالَ النَّاسِ یُرِیْدُ إِتْلَافَھَا أَتْلَفَہُ اللّٰہُ۔‘‘][1] [اس بارے میں باب، کہ بہترین صدقہ وہی ہے، کہ اس کے بعد بھی آدمی مالدار رہ جائے اور جو شخص صدقہ کرکے خود محتاج ہوجائے، یا اس کے بال بچے محتاج ہوں، یا اس کے ذمے قرض ہو، تو قرض کی واپسی، صدقہ،[غلام]آزاد کرنے اور ہبہ پر مقدم ہوگی اور وہ[یعنی اس کا
Flag Counter