Maktaba Wahhabi

180 - 227
قرض سے زیادہ لی جانے والی چیز یا رقم ہی تو سود ہے۔ امام ابن قیم لکھتے ہیں: ’’وَاَمَّا السَّلَفُ وَالْبَیْعُ فَلِأَ نَّہُ إذَا أَقْرَضَہُ إِلٰی سَنَۃٍ، ثُمَّ بَاعَہُ مَایُسَاوِيْ خَمْسِیْنَ بِمَائۃٍ، فَقَدْ جَعَلَ ہٰذَا البَیْعَ ذَرِیْعَۃً إِلَی الزِّیَادَۃِ فِيْ الْقَرْضِ الَّذِيْ مُوْجِبُہُ رَدُّ الْمِثْلِ۔ وَلَولاً ہٰذَا الْبَیْعُ لَمَا أَقْرَضَہُ، وَلَوْلاَ عَقْدُ الْقَرْضِ لَمَا اشْتَرَی ذٰلِک۔‘‘ [1] ’’قرض اور بیچنے[کے جمع کرنے کی وجۂ حرمت یہ ہے]، کیونکہ جب وہ اس کو ایک سال کے لیے قرض دیتا ہے، پھر پچاس کی چیز سو میں دیتا ہے، تو اس نے فروختگی کو قرض میں اضافہ کا ذریعہ بنایا، حالانکہ قرض تو برابر کی واپسی کا مستحق ٹھہراتا ہے۔ اگر فروختگی کا یہ معاملہ نہ ہوتا، تو وہ اس کو قرض ہی نہ دیتا۔ اور اگر قرض نہ ہوتا، تو مقروض اس چیز کو نہ خریدتا]۔ گفتگو کا حاصل یہ ہے، کہ قرض کے ساتھ نتھی کیا ہوا تجارتی معاملہ حرام ہے، کیونکہ اس کے ذریعہ سے قرض کی بنا پر مقروض سے عام طور پر ناجائز فائدہ اٹھایا جاتا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس استحصال اور ظلم کا دروازہ بند کرتے ہوئے ابتدا ہی سے ان دونوں کو جمع کرنے سے منع فرما دیا۔ (۲) قرض کے ساتھ کرایہ کا لین دین کرنا کرایہ کا لین دین بھی خرید و فروخت کی طرح ہے، کہ جس میں ایک چیز یا نفع کے بدلے میں دوسری چیز یا نفع دینے کا معاہدہ طے پاتا ہے۔ جس طرح خرید و فروخت کے معاملے کو قرض کے ساتھ جمع کرنا ناجائز ہے، اسی طرح کرایہ کے لین دین کو بھی
Flag Counter