Maktaba Wahhabi

228 - 227
کرنے والے کتنے ہی لوگ کچھ ہی عرصہ بعد پٹڑی سے اُتر جاتے ہیں اور ادائیگی میں تاخیر کرنے کی بنا پر سود ادا کرتے ہیں۔ اس طرح اس قسم کے کارڈ کے استعمال کے مذکورہ بالا دونوں اسباب کے ساتھ ایک تیسری بات یہ بھی ہے، کہ یہ عام طور پر کارڈ والے کو صریح سودی معاملہ تک پہنچانے کا ذریعہ بنتا ہے۔ اس قسم کے کارڈ کے ناجائز ہونے کے لیے پہلے دو سبب بہت کافی ہیں۔ اور اگر وہ دو سبب بفرض محال نہ بھی ہو ں، تو ایک مسلمان کو اس کارڈ کے استعمال سے دُور کرنے کے لیے تنہا تیسرا سبب بھی کچھ کم اہم نہیں۔ ۳۔قرض کارڈ(Charge Card)کا شرعی حکم چارج کارڈ کے شرعی حکم کے حوالے سے بیان کردہ پہلی دونوں باتیں(۱…اور …ب)قرض کارڈ میں کلی طور پر موجود ہیں۔ تیسری خرابی(ج)جس سے چارج کارڈ میں بچنا مشکل تھا، اس کارڈ کے استعمال میں یقینی طور پر موجود ہے، کیونکہ اس کے استعمال کرنے والا خریداری کے دن ہی سے لیے ہوئے قرض پر سود دینے کا پابند ہوتا ہے۔ اس بنا پر یہ کارڈ اوّل تا آخر بلاشک و شبہ حرام کے زمرہ میں داخل ہے۔ ضروری تنبیہ: چارج کارڈ اور کریڈٹ کارڈ کے متعلق گفتگو کرتے وقت اس حقیقت کو پیش نظر رکھنا چاہیے، کہ عقل و دانش اورصحیح معاشی حکمت عملی کا تقاضا یہ ہے، کہ انسان اپنی چادر کے بقدر پاؤں پھیلائے۔ اپنے وسائل سے تجاوز کرنے والا وقتی طور پر تو اپنی خواہش کو پوری کر لیتا ہے، لیکن وہ اپنے آپ کو بے چینی اور پریشان حالی کی راہ پر ڈال دیتا ہے۔ علاوہ ازیں شرعی طور پر عام حالات میں سودی لین دین سے پاک قرض لینا ایک ناپسندیدہ کام ہے، اس سلسلے میں درج ذیل باتیں گزشتہ صفحات میں بیان کی جا چکی ہیں:
Flag Counter