Maktaba Wahhabi

47 - 227
أَوْ یَسْتَدِیْنُ مِنْ غَیْرِ حَاجَۃٍ طَمْعًا فِيْ مَالِ أَخِیْہِ، وَنَحْوِ ذٰلِکَ۔[1] [میں کہتا ہوں:آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جس قرض سے پناہ طلب کی، یا تو وہ جائز مقصد کی خاطر ہوگا، لیکن اس کے پاس اس کی واپسی کی کوئی شکل نہ ہوگی۔ اس طرح وہ اپنے بھائی کا مال برباد کرنے کے درپے ہوتا ہے، یا وہ قرض لیتا ہے اور اس کے پاس ادائیگی کے امکانات تو موجود ہیں، لیکن اس کا خیال عدم ادائیگی کا ہے۔ یا وہ اپنے بھائی کے مال کی حرص کرتے ہوئے بلا ضرورت اس سے قرض لیتا ہے،یا مراد اس طرح کی دیگر صورتیں ہیں۔] د:قرض لینے کی شرائط: حضرات محدثین کے مذکورہ بالا اقوال اور دیگر احادیث شریفہ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے، کہ قرض لینے کے لیے کچھ شرائط ہیں۔ توفیق الٰہی سے اپنے محدود علم کے مطابق ان میں سے تین شرائط ذیل میں پیش کی جارہی ہیں: (۱)قرض لینے کا معقول اور جائز سبب: قرض لینے کے لیے معقول اور جائز سبب کا ہونا ضروری ہے، کیونکہ روزِ قیامت اس بارے میں سوال کیا جائے گا۔ امام احمد نے حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہما سے روایت نقل کی ہے، کہ بلاشبہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’ یَدْعُوْ اللّٰہُ بِصَاحِبِ الدَّیْنِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ حَتّٰی یُوْقَفَ بَیْنَ یَدَیْہِ، فَیُقَالُ:’’یَا ابْنَ آدَمَ!فِیْمَ أَخَذْتَ ھٰذَا الدَّیْنَ؟ وَفِیْمَ
Flag Counter