Maktaba Wahhabi

31 - 38
حجاج کو دیتے تھے۔ لیکن اس بیان میں انہوں نے قربانی کو حجاج کی بجائے مکہ مکرمہ سے مخصوص کر دیا ہے۔ ہم ان سے پوچھنا چاہتے ہیں کہ اگر ہم آج حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے اتباع میں قربانی کے جانور کعبۃ اللہ بھیج دیں تو آپ ناراض تو نہ ہوں گے؟ اور اگر آپ خود بھی ایسا کر سکیں تو ہم آپ کو منکر قربانی کہنا چھوڑ دیں گے۔ اللہ کرے کہ آپ اس بیان پر قائم رہیں۔ اب ہمارا جھگڑا صرف اتنا ہے کہ جو مسلمان کسی شرعی عذر کے سبب حج کے لئے مکہ مکرمہ نہ جا سکے وہ اپنے وطن میں قربانی کر سکتا ہے یا نہیں؟ اس سلسلہ میں ہم ان سے وضاحت چاہتے ہیں کہ ان کے اس فقرہ میں تاریخ سے کیا مراد ہے؟ اگر کتب حدیث اس میں شامل ہیں تو پھر ان میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مدینہ منورہ میں قربانی کرنا اور صحابہ کرام دور حریت کے بعد ملوکیت "اسلام دنیا سے ملوکیت اور پیشوائیت (ملائیت) مٹانے کے لئے آیا تھا۔ وہ ابن ادم کو ذہنی اور روحانی دونوں حیثیتوں سے صرف خدا کا مملوک بنانا چاہتا تھا جو درحقیقت اس کی اپنی فطرت صالحہ کی محکومی کا دوسرا نام ہے۔ لیکن جب اس دور حریت کے بعد پھر سے ملوکیت نے سر نکالا تو اس کے ساتھ ہی پیشوائیت کی وہ روح بھی ابھری جسے قرآن نے مسل کر رکھ دیا تھا اسلام اس طرح جگمگا کر دنیا کے سامنے آیا تھا کہ اسے یک لخت
Flag Counter