Maktaba Wahhabi

113 - 236
علیٰ وجہ التنزل اگر یہ مان ہی لیا جائے کہ یہاں نقصان وصفی ہی مراد ہے،تب بھی نمازی کے لیے بہرحال و بہرصورت سورت فاتحہ کا پڑھنا ضروری قرار پاتا ہے،کیوں کہ ناقص نماز پڑھنے پر کون نمازی رضا مند ہو گا اور کون یہ چاہے گا کہ وہ نماز بھی پڑھے تو محض کسی خاص ذہنی تحفظ کی و جہ سے وہ ناقص پر ہی اکتفا کر لے،جب کہ حقیقتاً یہ نقصان بھی وصفی نہیں،بلکہ نقصانِ فساد و بطلان ہے،جیسا کہ تفصیل ذکر کی جا چکی ہے اور یہ وصفی،و غیر وصفی کی اصطلاح بھی تو ایک نئی اختراع ہے۔ دل میں پڑھنے کا مفہوم: اس حدیث میں یہ وضاحت بھی موجود ہے کہ جب راوی نے حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے سامنے اپنا اشکال رکھا کہ جب ہم امام کے پیچھے نماز پڑھ رہے ہوں تو قراء ت کا کیا کریں ؟ تو انھوں نے فرمایا: ’’اِقْرَأْ بِہَا یَا فَارِسِيُّ فِيْ نَفْسِکَ‘‘ ’’اے فارسی!اپنے دل میں آہستہ سے پڑھ لیا کرو۔‘‘ دل میں پڑھ لینے سے مراد یہ بھی نہیں کہ محض تدبر و غور کیا کرو،بلکہ اس کا معنی یہ ہے کہ بلا آواز آہستگی سے پڑھ لیا کرو،تاکہ امام کو تشویش نہ ہو،اس طرح قراء ت کرنے کو’’قِرَائَۃٌ فِيْ النَّفْسِ‘‘یا’’دل ہی دل میں پڑھنا‘‘کہا جاتا ہے اور اس میں یہ شرط ہے کہ با قاعدہ ہونٹ بھی ہلیں اور مقتدی اپنا پڑھنا خود بھی محسوس کرے،چنانچہ اس سلسلے میں شارحینِ حدیث نے یہی معنی و مفہوم ذکر کیا ہے،حتی کہ کئی اکابر علمائے احناف وغیرہ نے بھی اپنی شروح میں ایسا ہی کیا ہے،مثلاً: 1۔ علامہ علی قاری’’مرقاۃ شرح مشکاۃ‘‘میں لکھتے ہیں:
Flag Counter