Maktaba Wahhabi

146 - 236
’’تذکرۃ المنتہي فی إسکات المعتدي‘‘میں بھی اس نئے اختراعی معنی کو لینے کی غلط فہمی دور کر دی ہے،جیسا کہ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ اور مولانا اثری حفظہ اللہ نے تفصیلی اقتباسات بھی نقل کیے ہیں،جنھیں یہاں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ غرض آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ کو اگر قراء ت خلف الامام کے بارے ہی میں فرض کرلیں،تب بھی اس سے فریقِ ثانی کا دعویٰ ثابت نہیں ہوتا،کیوں کہ اس آیت سے زیادہ سے زیادہ صرف جہری قراء ت والی نمازوں میں قراء ت خلف الامام کی ممانعت ثابت ہوتی ہے،سری نمازوں میں اس سے ممانعت ہرگز ثابت نہیں ہوتی اور نہ ان مقتدیوں کے لیے ممانعت ثابت ہو سکتی ہے جو جہری قراء ت والی نمازوں میں امام کے سکتات میں سورت فاتحہ پڑھتے ہیں،کیوں کہ انصات و استماع کی اس طرح ہرگز مخالفت نہیں ہوتی۔ پانچواں جواب: کتبِ فقہ حنفیہ کی روسے جمعے کے دن جب خطیب خطبہ دے رہا ہو تو تمام لوگوں کے لیے اس کا سننا اور خاموش رہنا واجب ہے۔اس کے ثبوت میں ایک تو یہی آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ پیش کی جاتی ہے اور ایک حدیث ہے جس کے الفاظ صحیحین،سنن اربعہ،مسند احمد،موطا امام مالک اور بیہقی،دارمی نیز طیالسی میں معمولی تقدیم و تاخیر سے یہ ہیں: ((إِذَا قُلْتَ یَوْمَ الْجُمُعَۃِ لِصَاحِبِکَ:أَنْصِتْ،وَالْإِمَامُ یَخْطُبُ،فَقَدْ لَغَوْتَ)) [1] ’’اگر جمعے کے دن دورانِ خطبہ تم نے اپنے ساتھی سے کہا کہ خاموش رہو
Flag Counter