Maktaba Wahhabi

163 - 236
ایسی صورت میں مقتدی امام کے ساتھ ساتھ ہی آہستگی سے پڑھتا جائے،جسے سری قراء ت یا قراء ت فی النفس کہا جاتا ہے۔امام شافعی رحمہ اللہ اسے بھی صحیح سمجھتے ہیں اور یہ اس لیے کہ سورت فاتحہ چیز ہی ایسی ہے کہ احادیث نے اس کی اتنی اہمیت بیان کی ہے کہ اس کی تخصیص کے سوا کوئی چارہ ہی نہیں رہتا ہے۔ آٹھواں جواب: آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ سے مقتدی کے لیے ترکِ قراء ت کو ثابت کرنے والوں کے لیے قائلینِ وجوبِ فاتحہ نے ایک آٹھواں جواب یہ بھی دیا ہے کہ اس آیت سے سورت فاتحہ کی منسوخیت و ممنوعیت کا استدلال کرنا اس بات پر موقوف ہے کہ پہلے یہ ثابت کیا جائے کہ یہ آیت قطعی طور پر مسلمانوں کے بارے میں ہے اور اس میں کسی دوسرے کو خطاب نہیں کیا گیا،جب کہ یہ بات غیر مسلم ہے،چنانچہ ظاہر نظمِ قرآن اور سلسلۂ کلامِ الٰہی سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ اس آیت میں مسلمان نہیں،بلکہ کفار مخاطب ہیں،کیوں کہ اگر یہ آیت مسلمانوں سے متعلق ہو اور اس میں مقتدیوں کو خطاب مانا جائے تو اس تقدیر پر اس آیت کو ما قبل کی آیت سے کچھ تعلق و ربط باقی نہیں رہتا،اس طرح کلامِ الٰہی میں انقطاع لازم آتا ہے اور نظمِ قرآنی میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے جو کلامِ الٰہی کے شایانِ شان نہیں ہے،جیسا کہ کبار اہلِ علم میں سے امام رازی رحمہ اللہ نے اپنی تفسیر کبیر میں بڑی تفصیل سے یہ بات واضح کی ہے۔[1] لہٰذا جب ظاہر نظمِ قرآنی اس بات کا پتا دے رہا ہے کہ یہ آیت مسلمانوں کے بارے میں نہیں،بلکہ کفار کے بارے میں نازل ہوئی تھی تو یہ بات واضح ہے کہ اسے ترکِ قراء ت پر دلیل بنانا اور اس سے سورت فاتحہ کے مقتدی کے لیے ممنوع و منسوخ
Flag Counter