Maktaba Wahhabi

165 - 236
پھر بعد میں فرمایا:’’جب قرآن پڑھا جائے تو اس کو سنو اور خاموش رہو،تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘اگر یہاں مومن مراد ہوتے تو یہ نہ فرمایا جاتا:’’تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘کیوں کہ ان کے بارے میں تو اس سے پہلے فرمایا جا چکا ہے:’’قرآن مجید مومنوں کے لیے قطعاً باعثِ رحمت ہے۔‘‘اور اگر اس آیت میں کفار مراد ہوں تو یہ اشکال پیدا ہی نہیں ہوتا،پھر آخر میں لکھا ہے: ’’وَعِنْدَ ھَذَا یَسْقُطُ اِسْتِدْلَالُ الْخُصُوْمِ بِہِٰذِہٖ الْآیَۃِ مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ‘‘[1] ’’یعنی جب یہ بات ثابت ہو گئی کہ اس آیت میں خطاب مسلمانو ں کو نہیں،بلکہ کفار کو ہے تو اس آیت سے خصوم(فریقِ ثانی) کا استدلال’’مِنْ کُلِّ الْوُجُوْہِ‘‘ساقط ہوجاتا ہے۔‘‘ 2۔تائیدِ علامہ مبارکپوری رحمہ اللہ: امام رازی رحمہ اللہ کی اسی تفسیر کو بالتفصیل اپنی کتاب’’تحقیق الکلام‘‘میں نقل کرتے ہوئے علامہ عبد الرحمان مبارکپوری رحمہ اللہ نے بھی ان کی بھرپور تائید کی ہے۔ 3۔اختیارِ میر سیالکوٹی: کبار مفسرین و محدثین میں سے علامہ حافظ محمد ابراہیم میر سیالکوٹی رحمہ اللہ نے بھی اپنی کتاب’’واضح البیان‘‘میں اسی قول کو اختیار کیا ہے۔اس آیت کی یہی تفسیر بعض کبار صحابہ رضی اللہ عنہم و تابعینِ کرام رحمہم اللہ سے بھی منقول ہے اور مفسرینِ کرام نے ان سے اسے نقل اور قبول کیا ہے،مثلاً:
Flag Counter