Maktaba Wahhabi

184 - 236
دوسرا جواب: اس دلیل کا دوسرا جواب یہ بھی دیا گیا ہے کہ اگر یہ مان لیا جائے کہ یہ امام زہری کا نہیں بلکہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا قول ہے تو بھی بات نہیں بنتی،کیوں کہ یہ قول خلافِ واقع بنتا ہے،کیوں کہ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کا خود اپنا فتویٰ عمر بھر یہ رہا کہ امام کے پیچھے قراء ت ضروری ہے،خواہ نماز سری ہو یا جہری۔[1] حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ جو اس حدیث کے راوی ہیں،وہ سات ہجری میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے اور اس سے پہلے سورت اعراف کی آیت:﴿وَإِذَا قُرِئَ الْقُرْآنُ ﴾ مکہ مکرمہ میں نازل ہو چکی تھی۔اگریہ آیت قراء ت خلف الامام کی ممانعت پر نص ہے تو پھر سات ہجری کے بعد یہ کہنا کہ اس واقعے کے بعد جب صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے((مَا لِيْ اُنَازَعُ الْقُرْآنَ)) کے الفاظ سنے تو جہری نمازوں میں قراء ت خلف الامام ترک کر دی تھی،یہ انتہائی بے معنی سی بات ہے،بالخصوص جب کہ فریقِ ثانی کا کہنا ہے کہ اس آیت کا شانِ نزول ہی قراء ت خلف الامام ہے،لہٰذا نتیجہ واضح ہے کہ یا تو یہ آیت ترکِ قراء ت پر نص نہیں یا پھر((فَانْتَہَی النَّاسُ عَنْ القراءة)) والا جملہ خلافِ واقع ہے۔ تیسرا جواب: اس دلیل کا قائلینِ وجوب یہ جواب بھی دیتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے((مَا لِيْ اُنَازَعُ الْقُرْآن)) فرما کر صحابہ رضی اللہ عنہم پر نکیر اس لیے نہیں فرمائی کہ انھوں نے قراء ت کیوں کی تھی،بلکہ نکیر کا اصل سبب ان کا بلند آواز سے قراء ت کرنا تھا،کیوں کہ منازعت صرف اسی صورت میں ہو سکتی ہے،جب اونچی آواز سے قراء ت کی جائے۔
Flag Counter