Maktaba Wahhabi

202 - 236
’’وہ قول واجبِ عمل ہے جو ان کے مابین مشہور ہو اور ان سب نے اسے تسلیم کرتے ہوئے خاموشی اختیار کی ہو اور وہ بالاجماع واجبِ عمل نہیں ہے،جس کے بارے میں ان کے مابین اختلاف پایا گیا۔‘‘ 6۔ ’’غیث الغمام حاشیۃ إمام الکلام‘‘ (ص:۱۰۹،۱۵۵) میں علامہ عبدالحی نے لکھا ہے: ’’حُجَّۃُ آثاَرِ الصَّحَابَۃِ إِنَّمَا تَکُوْنُ مُفِیْدَۃً إِذَا لَمْ یَکُنِ الْأَمْرُ مُخْتَلِفاً فِیْہِ بَیْنَہُمْ‘‘[1] ’’آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی حجت اس وقت مفید ہو گی،جب وہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے مابین مختلف فیہ نہ ہو۔‘‘ یہ تو علمائے احناف کی تصریحات کے مطابق آ ثارِ صحابہ کی حجیت سے متعلق مختصر بحث تھی،جب کہ احناف کی طرح دیگر فقہا اور محدثین کے نزدیک آثارِ صحابہ کی حجیت ان دو شرطوں کے ساتھ ہی مشروط ہے کہ اس مسئلے میں نہ تو کوئی مرفوع حدیثِ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے مخالف ہو اور نہ صحابہ کے مابین ہی اس مسئلے میں اختلافِ رائے ہو۔[2] مسئلہ زیرِ بحث اور آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم: مسئلہ زیرِ بحث میں آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی پوزیشن یہ ہے کہ جن صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے امام کے پیچھے سورت فاتحہ کا ترک قولاً یا فعلاً ثابت ہے،انہی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم سے سورت فاتحہ خلف الامام کا پڑھنا ترک کی نسبت بہتر اسناد سے ثابت ہے،جیسا کہ علامہ ابن عبد البر نے’’التمہید شرح الموطأ‘‘میں لکھا ہے:
Flag Counter