Maktaba Wahhabi

204 - 236
عبداللہ رضی اللہ عنہما سے مروی ہے: ((کُنَّا نَقْرَأُ فِيْ الظُّہُرِ وَالْعَصْرِ خَلْفَ الْإِمَامِ فِيْ الرَّکْعَتَیْنِ الْاَوْلَیَیْنِ بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ وَسُوْرَۃٍ وَفِيْ الْاُخْرَیَیِن بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) [1] ’’ہم امام کے پیچھے ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورت فاتحہ اور کوئی سورت اور آخری دو رکعتوں میں صرف سورت فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔‘‘ اس اثر کے بارے میں حاشیہ میں زوائد ابن ماجہ علامہ بو صیری سے نقل کرتے ہوئے،علامہ سندھی حنفی نے لکھاہے: ’’ہَذَا إِسْنَادٌ صَحِیْحٌ،رِجَالُہٗ ثِقَاتٌ‘‘[2] ’’یہ سند صحیح ہے اور اس کے تمام راوی ثقہ ہیں۔‘‘ ایک دوسرے حنفی عالم مولانا عبد الحی نے بھی’’امام الکلام‘‘(ص:۳۲) میں لکھا ہے: ’’حضرت جابر رضی اللہ عنہ سری نمازوں میں قراء ت خلف الامام کے قائل تھے۔‘‘ جب مسئلہ زیرِ بحث میں ہر صحابی سے دو طرح کے آثار ملتے ہیں اور ان میں سے بھی صحیح تر قراء تِ فاتحہ کے ہیں تو پھر ترک والوں کی کیا حیثیت ہو گی؟ ان دو تین اصولی باتوں کو ذہن میں رکھیں،تاکہ آثارِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے تذکرے میں آپ خود فیصلہ کر سکیں کہ ان میں قوتِ دلیل کس قدر ہے؟ پہلا اثر: فریقِ ثانی نے اپنے موقف کی تائید میں جو آثار پیش کیے ہیں،ان میں سے
Flag Counter