Maktaba Wahhabi

213 - 236
یہ بھی محض ایک احتمال ہی ہے،جس کے بارے میں تفصیل ذکر کی جا چکی ہے کہ مدرکِ رکوع کی رکعت ہوتی ہے کہ نہیں ؟! بہرحال امام اسحاق نے اس اثر کے عموم کو رکوع کی رکعت سے خاص کردیا ہے،اب مقامِ غور یہ ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ اس اثر سے((لَا صَلَاۃَ إِلَّا بِفَاتِحَۃِ الْکِتَابِ)) والی حدیث کے عموم کی تخصیص کریں تو مانعینِ قراء ت اسے قبول کر لیتے ہیں،پھر کیا وجہ ہے کہ اگر امام اسحاق بن راہویہ اسی اثر کے عموم کو رکوع کی رکعت سے خاص کریں تو اسے قبول نہ کیا جائے؟! 3۔ ایک تیسری بات یہ بھی پیشِ نظر رکھیں کہ اس اثر میں عموم مطلق ہے تو پھر یہ اثر خود مانعینِ قراء ت(احناف) کے اپنے مسلک کے خلاف بھی ہے،کیوں کہ ان کے نزدیک فرض نماز کی آخری دو رکعتوں میں سورت فاتحہ تو کجا مطلقاً قراء ت ہی فرض نہیں۔چپ چاپ کھڑے رہیں،یا صرف’’سُبْحَانَ اللّٰہِ،سُبْحَانَ اللّٰہِ‘‘ہی کہہ دیجیے تو بھی نماز ہو جائے گی،لہٰذا بہتر تو یہ ہے کہ امام اسحاق رحمہ اللہ کے قول کے مطابق حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی اس اثر اور انہی سے مروی وجوبِ قراء تِ فاتحہ والے اثر کے ما بین تطبیق بھی ہوجائے۔[1] آٹھواں اثر: مانعینِ قراء ت اپنی تائید میں جو آٹھواں اثر پیش کرتے ہیں،وہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے صحیح مسلم اور معانی الاآثار طحاوی میں مروی ہے،جس میں حضرت عطاء بن یسار رحمہ اللہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت زید رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ کیا امام کے ساتھ قراء ت کی جا سکتی ہے ؟ تو انھوں نے فرمایا:
Flag Counter