Maktaba Wahhabi

218 - 236
سے اور مولانا لکھنوی حنفی کی’’إمام الکلام‘‘سے بھی عبارتیں نقل کی ہیں۔تفصیل کے لیے’’تحقیق الکلام‘‘(۲؍۲۰۳۔۲۰۹) طبع فاروقی کتب خانہ ملتان اور’’توضیح الکلام‘‘(۲؍۷۳۶) ملاحظہ فرما لیں۔ دعوائے اجماع کی حقیقت: مانعینِ قراء ت نے اس مسئلے پر اجماعِ صحابہ رضی اللہ عنہم کا دعویٰ بھی کیا ہے،جیسا کہ علامہ برہان الدین مرغینانی نے’’ہدایۃ‘‘میں لکھا ہے: ’’وَعَلَیْہِ إِجْمَاعُ الصَّحَابَۃِ‘‘ ’’ترکِ قراء ت خلف الامام پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہے۔‘‘ شرح ہدایہ میں ابن الہمام اور علامہ عینی نے بھی صاحبِ ہدایہ کی تائید کی ہے۔جب کہ اجماع کا یہ دعویٰ قطعاً غیر صحیح و بلا سند ہے،کیوں کہ اگر زیادہ نہیں تو محض موطا امام محمد اور شرح معانی الآثار طحاوی کا ہی مطالعہ کر لیا جائے تو بات واضح ہو جاتی ہے کہ یہ مسئلہ اجماعی ہرگز نہیں ہو سکتا،بلکہ صحابہ رضی اللہ عنہم کا اس مسئلے میں اختلاف اہلِ علم سے پوشیدہ نہیں۔متقدمین علمائے احناف کے علاوہ متاخرین میں سے بھی مولانا احمد علی سہارنپوری،مولانا رشید احمد گنگوہی اور مولانا عبد الحی لکھنوی نے قراء تِ فاتحہ سے متعلقہ رسائل و کتب میں اس مسئلے کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے ما بین مختلف فیہ ہونے کی تصریح کی ہے اور صاحبِ ہدایہ کی بات پر تعاقب کرتے ہوئے ہدایہ ہی کے ایک محشی مولانا اللہ داد جو نپوری نے لکھا ہے: ’’لَوْ کَانَ بِہٖ اِجْمَاعاً لَکَانَ الشَّافِعِيُّ أَعْرَفَ بِہٖ‘‘[1] ’’اگر اس مسئلے میں اجماع ہوتا تو امام شافعی رحمہ اللہ اسے ضرور جانتے ہوتے۔‘‘
Flag Counter