Maktaba Wahhabi

100 - 389
جواب:داڑھی رکھنے کے متعلق بخاری شریف کی حدیث صریح نص ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے داڑھی کو بڑھانے کا حکم دیا ہے اور آپ نے خود داڑھی بڑھائی اور داڑھی کا کاٹنا یا منڈانا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت نہیں۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کے علاوہ بھی کئی ایک احادیث داڑھی بڑھانے اور اسے معاف کرنے پر دلالت کرتی ہیں۔احادیث میں داڑھی کے متعلق واعفوا،أوفوا،وفروا،أرجوا،أرخوا پانچ طرح کے الفاظ ملتے ہیں جنہیں امام نووی نے مسلم کی شرح میں اور قاضی شوکانی نے نیل الاوطار میں ذکر کیا ہے۔ان الفاظ کا تقاضا یہی ہے کہ داڑھی کو اول روز سے رکھ لینا چاہیے اسے کانٹ چھانٹ اور منڈانے سے پرہیز کرنا چاہیے۔صحابی رسول عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کا اپنا ذاتی عمل کوئی شرعی دلیل نہیں ہے۔حدیث مرفوع کے مقابل اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔مذکورہ الفاظ حدیث امر کے صیغے ہیں اور امر لغت عرب میں وجوب پر دلالت کرتا ہے۔اسلام میں داڑھی رکھنا واجب ہے۔اس کے خط بنوانے کی کوئی دلیل شرعی موجود نہیں،اہل تشیع کے ہاں داڑھی تراشنا حرام ہے جیسا کہ علامہ محمد حسین نجفی نے اپنی کتاب"حرمت ریش تراشی"میں بادلائل واضح کیا ہے اور کئی ایک ائمہ اہل سنت کے ہاں داڑھی ایک مشت ہونی چاہیے اور وہ آثار صحابہ سے دلیل لاتے ہیں۔صحیح بات یہی ہے کہ حدیث نبوی کے مقابلے میں اثر صحابی کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔لہذا بہتر موقف یہی ہے کہ داڑھی بڑھائی جائے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے خود داڑھی بڑھائی بھی ہے اور بڑھانے کا حکم بھی دیا ہے اور اس کی کوئی حد مقرر نہیں کی۔ لہذا ہمیں بھی اس کی حد بندی سے اجتناب کرنا چاہیے۔ داڑھی کٹانے والا امام سوال:ہمارے محلے کی مسجد میں امام صاحب اپنی داڑھی کو کٹواتے ہیں اور ان کی داڑھی ایک مٹھی سے بھی کم ہے کیا ایسے شخص کے پیچھے نماز پڑھنی جائز ہے یا نہیں اور ایسے شخص کو امام بنانا کیسا ہے۔(محمد اقبال،حسن پورہ فیصل آباد)
Flag Counter