Maktaba Wahhabi

151 - 389
دعا کی ہے اور خود بھی اس پر عمل کیا ہے۔ اسی طرح مغرب سے پہلے دو رکعت نفل ادا کرنا بھی صحیح و درست ہے اور قولی و فعلی دونوں حدیثوں سے ثابت ہے۔صحیح البخاری میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:مغرب سے پہلے نماز پڑھو،مغرب سے پہلے نماز پڑھو،تیسری بار فرمایا:جو چاہے پڑھ لے۔یہ آپ نے اس لئے کہا کہ کہیں لوگ اسے مستقل سنت نہ بنا لیں۔صحیح ابن حبان وغیرہ میں عبداللہ المزنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مغرب سے پہلے دو رکعت نماز ادا کی۔(صحیح ابن حبان 615 موارد الظمآن) لہذا یہ دو رکعت بھی اگر کوئی ادا کرنا چاہے تو بالکل جائز اور درست ہے اس میں کوئی اشکال نہیں ہے۔ وتر کی آخری رکعت سوال:کیا وتر کی آخری رکعت میں شامل ہونے سے ایک وتر ادا ہو جاتا ہے۔(محمد جاوید،کوڑے شاہ زیریں ضلع ساہیوال) جواب:نماز باجماعت کی صورت میں مقتدی کو اتنی رکعات ہی ادا کرنی چاہئیں جتنی امام پڑھتا ہے یہ بات درست نہیں کہ امام تین رکعات نماز پڑھائے اور مقتدی آخری رکعت میں شریک ہونے سے یہ سمجھ لے کہ مجھے ایک رکعت وتر مل گیا ہے۔مقتدی کی تعداد رکعات اتنی ہونی چاہیے جتنی امام نے پڑھائی ہیں۔اس کی دلیل ایک تو یہ حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:إنما جعل الإمام ليؤتم به۔الحدیث(متفق علیہ)"امام اس لئے بنایا گیا ہے کہ اس کی اقتداء کی جائے۔" اور دوسری حدیث میں ہے کہ"فما أدركتم فصلوا وما فاتكم فأتموا"(متفق علیہ)"جو نماز تم امام کے ساتھ پا لو وہ پڑھ لو اور جو تم سے رہ گئی اسے پورا کر لو۔"ان احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ امام کی پیروی کرنی چاہیے جتنا حصہ نماز کا ملے وہ پڑھ لیں باقی ماندہ پورا کریں،لہذا امام اگر تین وتر پڑھائے اور مقتدی ایک رکعت پائے
Flag Counter