Maktaba Wahhabi

153 - 389
جواب:فوت شدہ نمازوں کو ترتیب کے ساتھ پڑھنا چاہیے،نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی غزوہ احزاب میں بعض نمازیں فوت ہو گئیں تو انہوں نے ترتیب سے ادا کی تھیں۔صحیحین میں جابر رضی اللہ عنہ خندق والے دن آئے تو کفار قریش کو برا بھلا کہنا شروع کیا اور کہا:اے اللہ کے رسول آج میں بمشکل سورج ڈوبتے نماز پڑھ سکا۔رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ کی قسم میں نے تو ابھی نماز نہیں پڑھی،اس کے بعد ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وادی بطحان اترے،آپ نے نماز کے لئے وضو کیا اور ہم نے بھی وضو کیا،پھر غروب شمس کے بعد عصر کی نماز پڑھی،پھر اس کے بعد مغرب کی نماز پڑھی۔نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نماز کے فوت ہو جانے کا اس قدر ملال تھا کہ آپ نے مشرکین پر بددعا کی،چنانچہ صحیح بخاری میں علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ نے خندق والے دن کہا:اللہ ان مشرکین کے لئے ان کے گھروں اور قبروں کو آگ سے بھر دے جس طرح انہوں نے ہمیں نماز وسطی سے مشغول رکھا یہاں تک کہ سورج ڈوب گیا۔ مسند احمد اور مسند شافعی میں ہے کہ انہوں نے ظہر،عصر،مغرب اور عشاء کی نمازوں سے روکے رکھا آپ نے ساری نمازیں اکٹھی پڑھیں۔ امام نووی نے فرمایا ہے کہ ان روایتوں کے درمیان تطبیق کی صورت یہ ہے کہ جنگ خندق کئی روز رہی پس کسی دن دوسری صورت ہو۔(الرحیق المختوم عربی ص 305) معلوم ہوا کہ فوت شدہ نمازیں ترتیب سے ادا کرنی چاہئیں۔مسافر کو اللہ نے حالت سفر میں دو سہولتیں عطا کی ہیں:(1)نماز قصر(2)جمع کر کے پڑھنا،یعنی ظہر و عصر اور مغرب و عشاء اور جس نے حالت سفر میں اس سہولت سے فائدہ نہیں اٹھایا اور واپس گھر آ گیا تو یہاں حالت اقامت میں پوری نماز ادا کرے۔ نماز میں رونا سوال:کیا حالت نماز میں عذاب وغیرہ کی آیات سن کر رونا جائز ہے کئی لوگ نماز میں اس طرح روتے ہیں کہ بسا اوقات ہچکیاں بندھ جاتی ہیں۔کیا ایسا کرنا درست
Flag Counter