Maktaba Wahhabi

200 - 389
ساری آمدنی سے عشر ادا کرنا ضروری ہے کیونکہ اللہ کا ارشاد ہے: ترجمہ"اے ایمان والو! خرچ کرو پاکیزہ چیزوں میں سے جو تم نے کمائی ہیں۔اور اس میں سے جو ہم نے تمہارے لیے زمین سے نکالا ہے۔"(البقرہ:365) اس آیت میں اللہ نے زمین سے نکلنے والی ساری آمدنی میں سے خرچ کرنے کا حکم دیا ہے اور اگر اس کے پاس زمینی آمدنی کے علاوہ اور کوئی ذریعہ آمدن نہیں تو وہ زمین کی آمدنی سے اپنا قرض اتارے اور باقی سے عشر دے اور اگر قرض اتنا ہے کہ آمدنی سے پورا پورا وضع ہوتا ہے تو قرض ادا کر دے۔اس پر عشر فرض نہیں،اس لیے کہ اللہ نے مسلمانوں پر جو صدقہ فرض کیا ہے وہ اغنیاء سے لیا جاتا ہے اور فقراء پر تقسیم کیا جاتا ہے۔جیسا کہ صحیح بخاری(4345)میں موجود ہے۔ جس آدمی کا سارا مال ہی قرض میں جا رہا ہو تو وہ غنی نہیں بلکہ فقیر ہے۔اور اللہ کسی آدمی کو اس کی وسعت سے بڑھ کر تکلیف نہیں دیتا۔تفصیل کے لیے دیکھیں۔(احکام زکوٰۃ و عشر و صدقہ فطر از حافظ عبدالسلام بن محمد) زمین کا ٹھیکہ،عشر کون دے؟ سوال:زمین ٹھیکے پر دینا جائز ہے یا ناجائز،دلائل سے ثابت کریں اگر جائز ہے تو عشر مالک دے گا یا مزارع۔(ابو عاصم محمد مشتاق،مسئول سندھوالہ سیکٹر سیالکوٹ) جواب:زمین کو اگر کرائے پر دینا ہو تو روپے پیسے کے عوض یا کل پیداوار میں سے مقررہ کردہ حصہ کے بدلے میں دے،شرعی طور پر اس کی رخصت موجود ہے۔صحیح بخاری میں حدیث ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر کے یہودیوں کو زمین اس شرط پر دی کہ وہ اس میں کاشت کاری کریں تو کل پیداوار میں سے نصف حصہ ان کا ہو گا اور نصف ہمارا۔اسی طرح بخاری و مسلم میں یہ بھی ہے کہ رافع رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:ہم زمین کو کرائے پر اس طرح دیتے تھے کہ طے کر لیتے کہ زمین کے اس حصے کی پیداوار ہماری
Flag Counter