Maktaba Wahhabi

240 - 389
نیز ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "جس نے روزہ کی حالت میں بھول کر کچھ کھا لیا یا پی لیا،وہ اپنا روزہ پورا کر لے،کیونکہ اسے اللہ نے کھلایا اور پلایا ہے۔"(متفق علیہ) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے: "جس نے رمضان میں بھول کر روزہ توڑ دیا تو اس پر نہ قضا ہے نہ کفارہ۔" اس حدیث کی امام حاکم نے تخریج کی ہے اور صحیح قرار دیا ہے۔ اس حدیث کے الفاظ میں جماع اور دیگر تمام مفطرات شامل ہیں۔ تارک نماز کے روزے کا حکم سوال:تارک نماز کے روزہ رکھنے کا کیا حکم ہے؟ اور اگر وہ روزہ رکھے تو کیا اس کا روزہ درست ہے؟ جواب:صحیح بات یہ ہے کہ عمدا نماز ترک کرنے والا کافر ہے،لہذا جب تک وہ اللہ تعالیٰ سے توبہ نہ کر لے اس کا روزہ اور اسی طرح دیگر عبادات درست نہیں،کیونکہ اللہ عزوجل کا ارشاد ہے: ﴿وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ﴾(سورۃ الانعام:88) "اور اگر انہوں نے شرک کیا ہوتا تو وہ سب اکارت ہو جاتا جو وہ کرتے تھے۔" نیز اس معنی کی دیگر آیات اور احادیث بھی تارک نماز کے اعمال اکارت ہو جانے کی دلیل ہیں۔ لیکن کچھ اہل علم اس طرف گئے ہیں کہ تارک نماز اگر نماز کی فرضیت کا معترف ہے لیکن سستی و لاپرواہی کی وجہ سے نماز چھوڑتا ہے،تو اس کا روزہ اور دیگر عبادات برباد نہیں ہوں گی،لیکن پہلا قول ہی زیادہ صحیح ہے،یعنی عمدا نماز ترک کرنے والا کافر ہے،بھلے وہ نماز کی فرضیت کا معترف ہو،کیونکہ اس قول پر بے شمار دلائل موجود ہیں،
Flag Counter