Maktaba Wahhabi

320 - 389
نمبر 14 اور سورۃ بقرۃ کی آیت نمبر 233 کے ساتھ ملا کر استدلال کیا ہے کہ اقل مدت چھ ماہ ہے،یہ استنباط قوی اور صحیح ہے اور اس پر عثمان رضی اللہ عنہ اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے موافقت کی ہے۔ نیز دیکھیں تفسیر قرطبی 16/129 ہے احکام القرآن لابن العربی 4/1697،1698 تفسیر مدارک 2/553 تفسیر قاسمی 8/445 فتح البیان 6/300 لہذا شادی کے دو ماہ بعد پیدا ہونے والا بچہ کسی طرح بھی حلال کا شمار نہیں ہو سکتا۔ہم یہاں پر ان والدین سے بھی گزارش کریں گے جو اپنے بچوں کے رشتے کرنے کے بعد سالہا سال شادی میں تاخیر کر دیتے ہیں کہ وہ اپنی اولاد کے جوان ہونے کے ساتھ ان کے نکاح کر دیں تاکہ وہ کسی فعل حرام کا ارتکاب نہ کریں اور نکاح کے بندھن میں بندھ جانے کے بعد جائز اور حلال طریقے سے اپنے ایام ہائے زندگی بسر کریں اور فعل حرام کی ذلت و رسوائی سے محفوظ ہو سکیں۔خود ایجاد کردہ رسم و رواج نے ہمیں ذلت و تباہی کے دہانے پر لاکھڑا کیا ہے۔رسم و رواج کو پورا کرنے کے لئے والدین جائز و ناجائز طریقے اختیار کرتے ہیں اور اولادیں حرام طریقوں سے اپنی جنسی خواہشات پورا کرنے کے لئے مختلف گلی،محلوں،سڑکوں،چوراہوں،پارکوں اور ہوٹلوں میں سرگرداں ہیں۔اللہ تعالیٰ افراط و تفریط سے ہٹ کر صحیح اسلامی شاہراہ پر گامزن ہونے کی ہر ایک مسلم کو توفیق بخشے اور اولادوں کی صحیح اسلامی نہج پر تربیت کرنے کی ہمیں توفیق عنایت کرے۔آمین ولی کی اجازت کے بغیر نکاح سوال:کیا ولی کی اجازت کے بغیر نکاح ہو سکتا ہے؟ جواب:الجواب بعون الوهاب ومنه الصدق والصواب واليه المرجع والماب شریعت اسلامیہ میں نکاح کی شرائط میں سے عورت کے لئے ولی کا ہونا ضروری ہے اس پر کئی ایک آیات قرآنیہ اور احادیث نبویہ شاہد ہیں ارشاد باری تعالیٰ
Flag Counter