Maktaba Wahhabi

341 - 389
"اے ایمان والو! جب تم مومنہ عورتوں سے نکاح کرو پھر انہیں چھونے سے پہلے طلاق دے دو تو تمہارے لئے ان پر کوئی عدت نہیں جسے تم شمار کرو۔"(الاحزاب 33/49) لہذا جب غیر مدخولہ عورت کو طلاق دی جائے تو عدت گزارے بغیر وہ نکاح ثانی کر سکتی ہے،صورت مسئول میں عطاء اللہ خاں نے جو اپنی غیر مدخولہ کو طلاق دی ہے یہ طلاق واقع ہو چکی ہے لیکن اگر یہ دوبارہ آپس میں تعلقات بحال رکھنا چاہیں تو نیا نکاح پڑھوا سکتے ہیں ان کی ایک طلاق واقع ہوئی ہے۔ طلاق کے بعد رجوع سوال:ایک سال پہلے میں نے گھر میں لڑائی جھگڑا کے دوران اپنی بیوی کو غصے کی حالت میں تین مرتبہ طلاق دے دی۔تین دن کے بعد میں پھر چلا گیا،واقعہ کے بعد ڈیڑھ ماہ میں برادری کے چند افراد کے ساتھ میں نے دوبارہ رجوع کر لیا،کیا اب ہمارا نکاح باقی ہے یا نہیں۔نیز حلالہ کی ضرورت ہے یا نہیں۔(ڈاکٹر محمد عارف،میڈیکل سنٹر عبدالحکیم ضلع خانیوال) جواب:صورت مسئولہ میں ایک طلاق رجعی ہے جس میں دوران عدت صلح ہو سکتی ہے،عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے صحیح مسلم،مسند احمد،مستدرک حاکم اور مصنف عبدالرزاق میں حدیث ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک،ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ اور عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی خلافت کے ابتدائی دو سالوں تک اکٹھی تین طلاقیں ایک طلاق شمار ہوتی تھی اور مسند احمد،مسند ابی یعلی میں رکانہ والی حدیث میں ہے کہ انہوں نے اپنی بیوی کو تین اکٹھی طلاقیں دے دیں،پھر اس پر غم زدہ ہوئے،آپ نے رجوع کا امر فرمایا تو انہوں نے رجوع کر لیا،لہذا یہ ایک طلاق رجعی ہے جس میں آپ نے عدت کے اندر صلح کر لی ہے۔آپ کا نکاح صحیح ہے حلالے کی قطعا حاجت نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حلالہ کرنے والے اور کروانے والے پر لعنت کی ہے۔
Flag Counter