Maktaba Wahhabi

379 - 389
کبوتر اڑانا اور مرغ لڑانا سوال:کبوتر اڑانے والے اور مرغ لڑانے والوں کے بارے میں شریعت کا کیا حکم ہے؟(سائل مذکور۔۔۔) جواب:شریعت کی نظر میں کبوتر بازی مکروہ ہے،ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ بلاشبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو ایک کبوتر کے پیچھے دوڑتا ہوا دیکھا تو فرمایا: شیطان شیطانہ کے پیچھے لگا ہوا ہے۔(مسند احمد 17/221(8543)ابن ماجہ 3765،الادب المفرد 1300،المسند الجامع 17/639) قاضی شوکانی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:اس حدیث میں کبوتروں کے ساتھ کھیلنے کی کراہت پر دلیل ہے اور یہ ایسا کھیل ہے جس کی شرع میں اجازت نہیں دی گئی اور شیطان کا لفظ ایسے آدمی پر بولا جانا اس پر دلالت کرتا ہے اور کبوتری پر شیطانہ کے لفظ کا اطلاق یا تو اس وجہ سے ہے کہ وہ آدمی کے اس کے لیے پیچھے لگنے کا سبب ہے۔یا وہ ایسا شیطانی عمل کرتی ہے کہ اس کی مطابقت اور اس کے حسن صورت اور نغمے کی عمدگی کے باعث انسان اس کا گرویدہ ہو جاتا ہے۔یا وہ حقیقت میں کبوتر کی شکل میں جن شیطان ہے جو آدمی کو اللہ کے ذکر سے غافل کرتی ہے۔(فضل اللہ الصمد 2/684) امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:بچے نکلوانے اور انڈے لینے یا انس کے لیے یا خطوط بھیجنے کے لیے کبوتر رکھنا بلا کراہت جائز ہیں۔بہرکیف کبوتروں کے ساتھ کھیلنے کے متعلق صحیح بات یہی ہے کہ مکروہ ہے اور اگر اس کھیل کے ساتھ جوا مل جائے تو حرام ہے۔(فضل اللہ الصمد 2/684 مرقاہ شرح مشکوٰۃ 8/280) رہا جانوروں کو آپس میں لڑانا تو یہ بھی شرعا حرام ہے کیونکہ جانوروں کو ایذاء دینا شریعت اسلامیہ میں جائز نہیں ہے۔جانوروں کو لڑانے کے متعلق عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک روایت یوں ہے کہ ’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:جانوروں کو ایذاء و تکلیف دینا درست نہیں‘‘،جیسا کہ
Flag Counter