Maktaba Wahhabi

416 - 389
ہے اور انہیں برابر کے لعنتی قرار دیا ہے۔(صحیح مسلم) اسی طرح ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:سود کے ستر حصے ہیں سب سے چھوٹا حصہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ (ابن ماجہ،الترغیب والترہیب) لہذا اتنے بڑے گناہ سے اجتناب کیا جائے اور ہر طرح کے سودی معاملے سے مکمل گریز کیا جائے تاکہ آخرت سنور جائے۔ قائدین یا علماء کے حفاظتی انتظامات کا جواز سوال:مختلف علماء کرام اور قائدین نے اپنے ساتھ جو باڈی گارڈز رکھے ہوئے ہیں ان کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ کیا یہ اللہ پر توکل کے خلاف نہیں؟ جواب:دشمنان دین کی بڑھی ہوئی یلغاروں اور فسادات کے ہوتے ہوئے اپنی حفاظت کے لئے اسباب کو بروئے کار لانا توکل کے خلاف نہیں،جیسا کہ ایک آدمی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا:کیا میں اپنی اونٹنی چھوڑ دوں اور اللہ پر توکل کروں؟ آپ نے فرمایا:اس کا گھٹنا باندھ اور توکل کر۔(صحیح ابن حبان 2539،مستدرک حاکم 623) اس صحیح حدیث سے معلوم ہوا کہ اسباب کو بروئے کار لانا توکل علی اللہ کے خلاف نہیں،لہذا علمائے کرام یا قائدین اسلام اگر دشمنان دین کی خفیہ چالوں سے محفوظ ہونے کے لئے حفاظتی سازوسامان کا بندوبست کرتے ہیں تو یہ توکل علی اللہ کے خلاف نہیں۔ جہاد و قتال ایک ایسا فریضہ ہے جس میں اسلحہ وغیرہ کی ضرورت ہوتی ہے جس سے جان و مال کی حفاظت کی جاتی ہے اور جان و مال کی حفاظت شریعت اسلامی میں مطلوب ہے۔قرآن حکیم اور احادیث صحیحہ میں ایسے دلائل بکثرت موجود ہیں۔جن میں اسباب اختیار کرنے کا صراحتا حکم ہے،ارشاد باری تعالیٰ ہے: "اور ان کافروں کے لئے اپنی استطاعت کے مطابق قوت تیار رکھو۔"(الانفال 8/60)
Flag Counter