Maktaba Wahhabi

105 - 447
یہاں جن تعلقات کو جائز قرار دیا گیا ہے، ان سے یہی مدارات کا درجہ ہی مُراد ہے، چونکہ اس درجۂ مدارات میں بھی دِلی موالات ہی کی ایک شکل پائی جاتی ہے، لہٰذا اللہ تعالیٰ کے مومن بندوں کے دلوں میں اس مشابہت کی وجہ سے خلش پیدا ہوسکتی تھی، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اسی خلش کے سدِباب کے لیے اس کو موالات سے مستثنیٰ کر کے جائز قرار دیا ہے۔ تمام اَدیانِ عالَم میں سے صرف دینِ اسلام ہی کو یہ امتیاز حاصل ہے کہ وہ اپنے ماننے والوں کو کسی بھی حالت میں کِسی حرج میں مبتلا ہونے نہیں دیتا اور نہ اپنے پیروکاروں کو کسی کے ساتھ بد اخلاقی و بدخوئی سے پیش آنے کی تعلیم دیتا ہے، بلکہ پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے جو جنگی ضابطے مقرر کیے ہیں، انھیں پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو عین میدانِ کارزار میں بھی کِسی ایسے کام کی اجازت نہیں بخشی، جو اخلاق و مَردانگی کے خلاف ہو۔ کفار کے مقتولین کا مُثلہ نہ کرنا یا شکلیں بگاڑنے کے لیے ان کے ناک، کان کاٹنے کی ممانعت، فصلیں برباد نہ کرنا اور باغات نہ جلانا اور نہ اُجاڑنا۔ ایسے ہی عورتوں اور بچوں کو قتل نہ کرنے کے ضابطے نبیِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ اسلام کے کریمانہ اخلاق کا مُنہ بولتا ثبوت ہیں۔ 4۔معاملات: تعلقات کے مختلف چار دَرجوں میں سے چوتھا درجہ معاملات کا ہے، جس کا معنیٰ ہے: ’’باہمی تجارتی لین دین، اجرت وملازمت اور صنعت وحرفت کے معاملات۔‘‘ یہ بھی تمام غیر مسلموں کے ساتھ جائز ہیں، مگر ایک شرط کو پیشِ نظر رکھنا ضروری ہوگا کہ ان معاملات سے مسلمانوں کے مفاد عامہ کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔ رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ، خلفاے راشدین اور عام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کا تعامل اس بات پر شاہد ہے۔ تمام فقہاے اسلام نے اسی بنا پر اہلِ حرب کفّار کے ہاتھوں اسلحہ یا جنگی سامان فروخت کرنے کو ممنوع قرار دیا ہے اور باقی تجارت وغیرہ کی اجازت دی ہے۔ انھیں اپنے اداروں یا کارخانوں میں ملازم رکھنا یا خود ان کے یہاں ملازمت کرنا جائز ہے، بشرطیکہ ان اُمور سے عام مسلمانوں کو نقصان نہ پہنچتا ہو۔ [1] ان تفصیلات کو اگر سامنے رکھا جائے تو نہ غیر مسلموں کے لیے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف
Flag Counter