Maktaba Wahhabi

154 - 447
روایت امام احمد رحمہ اللہ سے بھی ملتی ہے، کیوں کہ امام اوزاعی رحمہ اللہ سے مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا: ’’ہمارے یہاں ایک عورت ہے، جو دو ماہ تک خونِ نفاس سے رہتی ہے۔‘‘ امام عطا رحمہ اللہ سے بھی ایک ایسا ہی واقعہ مروی ہے کہ انھوں نے بھی ایک ایسی ہی عورت دیکھی ہے اور اس مسلک کی دلیل و جود میں آنے والے یہی واقعات ہیں۔ [1] جبکہ چالیس دن والے مسلک کی دلیل حدیث شریف ہے۔ تحفۃ الاحوذی (۱/ ۲۳۱) میں علامہ عبدالرحمن مبارک پوری رحمہ اللہ نے چالیس دن والے مسلک ہی کو ترجیح دی ہے اور امام شوکانی رحمہ اللہ کی بھی یہی رائے ہے۔ [2] گویا چالیس دن تک نفاس اور بعد میں آنے والے خون کا حکم استحاضہ کا ہے، جس میں نماز روزہ وغیرہ سب ضروری ہیں اور اس میں کوئی اختلاف نہیں کہ نفاس کا حکم حیض والاہی ہے۔ [3] حیض و نفاس کی حالت میں نماز اور روزے کا حکم: حائضہ عورت کے گھر داری اور شوہر کی خدمت سے تعلق رکھنے والے بعض احکام تو پہلے ذکر کیے جا چکے ہیں، جبکہ اس کی نمازوں اور روزوں کے سلسلے میں شرعی حکم یہ ہے کہ ان ایام میں وہ نمازیں ادا کرے گی نہ روزے ہی رکھے گی۔ نمازیں تو کلی طور پر اسے معاف ہیں، مگر روزے بعد میں قضا کرنا ضروری ہیں۔ چنانچہ صحاح وسنن میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے: (( کَانَ یُصِیْبُنَا ذٰلِکَ مَعَ رَسُوْلِ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم فَنُؤْمَرُ بِقَضَآئِ الصَّوْمِ وَلَا نُؤْمَرُ بِقَضَآئِ الصَّلَاۃِ )) [4] ’’نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہدِ مسعود میں ہمیں حیض آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے ہمیں روزے قضا کرنے کا حکم تو ملتا، مگر نمازوں کی قضا کا حکم نہیں ملتا تھا۔‘‘ نفاس والی عورتیں بھی روزے تو قضا کریں گی، مگر نمازیں نہیں، کیو نکہ سنن ابی داود، مستدرکِ حاکم اور سنن بیہقی میں حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے:
Flag Counter