Maktaba Wahhabi

231 - 447
امام شوکانی رحمہ اللہ نے مذکورہ روایات کے علاوہ بھی بعض روایات نقل کی ہیں اور بعض اہلِ علم کا گردن کے مسح کو مستحب کہنے کا قول نقل کیا ہے۔[1] جب کہ وہ قول جمہور ائمہ کے خلاف ہے۔ ان تمام تصریحات سے معلوم ہوا کہ گردن کے مروجہ مسح کی بات بلا دلیل و بلا ثبوت ہے اور جس قدر مسح کا پتا چلتا ہے، وہ سر کے مسح میں داخل اور اسی کا تتمہ ہے۔ الٹے ہاتھوں سے گردن کا مسح صحیح تو کیا کسی ضعیف حدیث میں بھی مذکور نہیں ہے، لہٰذا سے ترک کرنا ہی اولیٰ ہے۔ 10۔ٹخنوں سمیت پاؤں دھونا: سر اور کانوں کے مسح کے بعد پہلے دایاں اور پھر بایاں پاؤں ٹخنوں تک دھویا جاتا ہے، جیسا کہ نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا مسنون طریقہ بتانے والی صحیح احادیث گزری ہیں، نیز ہاتھوں کی انگلیوں کے خلال کے ساتھ ہی یہ بھی ذکر ہوا تھا کہ پاؤں کی انگلیوں کا خلال کرنا بھی مستحب ہے اور اس سلسلے کی تین احادیث حضرت ابن صبرہ، ابن عباس اور مستور بن شداد رضی اللہ عنہم سے ذکر کی گئی تھیں، لہٰذا اب انھیں دہرانے کی ضرورت نہیں۔ ایڑیاں دھونے پر توجہ دینا: یہاں ایک اور بات بھی بطورِ خاص ذہن نشین کر لیں کہ بعض لوگ پاؤں کو دھوتے وقت جلد بازی اور بے پروائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس طرح اٹھ جاتے ہیں کہ ان کے پاؤں کی ایڑیوں کے سوکھے رہ جانے کا امکان ہوتا ہے۔ پوری ایڑیاں نہیں تو کہیں کہیں کوئی جگہ خشک رہ جائے، چاہے وہ ناخن برابر ہی کیوں نہ ہو تو اس طرح وضو نہیں ہوتا، بلکہ ایسے لوگوں کو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت وعید سنائی ہے، جو متعدد صحیح احادیث میں مذکور ہے۔ مثلاً صحیح بخاری ومسلم میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ (مکہ سے مدینہ تک) ایک سفر میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے پیچھے رہ گئے اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں آلیا، جب کہ عصرکا وقت نکل رہا تھا۔ لہٰذا ہم نے وضو کرنا اور پاؤں پر مسح کرنا شروع کیا تو یہ دیکھ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بلند آواز سے پکار کر دو تین مرتبہ فرمایا: (( وَیُلٌ لِّلأَْعْقَابِ مِنَ النَّارِ )) [2]
Flag Counter