Maktaba Wahhabi

273 - 447
شرح صحیح مسلم بن الحجاج للنووي‘‘ (۲/ ۴/ ۱۱۔ ۱۲) ’’المحلی لابن حزم‘‘ (۱/ ۲/ ۳۸۔ ۳۹) اور ’’تھذیب السنن القیم‘‘ (۱/ ۱۶۵ تا ۱۶۸) میں دیکھی جا سکتی ہیں۔ الغرض غسلِ جنابت کی صورت میں وِگ نہ اتارنے کی تو گنجایش ہے، بشرطیکہ پانی اصل بالوں کی جڑوں تک پہنچ سکتا ہو اور سر خشک رہ جانے کا خدشہ نہ ہو۔ ویسے ایسی اشیا کو اتارا ہی جاتا ہے کہ خراب نہ ہو جائیں، مگر مسئلہ اپنی جگہ موجود ہے۔ غسلِ حیض وجنابت میں فرق کی توجیہ: غسلِ حیض و جنابت میں جو یہ فرق کیا گیا ہے، اہلِ علم نے اس کی یہ توجیہ کی ہے کہ حالتِ جنابت تو چونکہ بکثرت ہوتی ہے، لہٰذا اس کے لیے ہر مرتبہ سر کو کھولنا باعثِ مشقّت ہے، جب کہ حیض تو ایک ماہ میں ایک ہی بار اور نفاس سالوں میں کبھی کبھار ہوتا ہے، لہٰذا ان میںچوٹی اور مینڈھیاں کھولنا تو کوئی باعثِ مشقّت نہیں رہتا۔[1] موزوں پر مسح: موسمِ سرما میں سردی سے بچنے کے لیے یا کِسی بھی دوسری غرض سے، جس شخص نے چمڑے کے موزے پہن رکھے ہوں اور پہنے بھی وضو و طہارت کی حالت میں ہوں، تو اسے اجازت ہے کہ انھیں اتار کر پاؤں دھونے کے بجائے ان موزوں کے اُوپر ہی گیلا ہاتھ پھیر کر مسح کرلے، کیوں کہ یہ مسح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث میں ثابت ہے، چنانچہ صحیح بخاری و مسلم، سُنن اربعہ اور مسندِ احمد میں ایک واقعہ مذکور ہے کہ حضرت جریر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ نے وضو کیا اور پاؤں کے موزوں پر مسح کیا۔ اُن سے پوچھا گیا کہ آپ ایسا کرتے ہیں؟ تو انھوں نے فرمایا: (( نَعَمْ، رَأَیْتُ رَسُولَ اللّٰہِ صلی اللّٰه علیہ وسلم بَالَ، ثُمَّ تَوَضَّأَ، وَمَسَحَ عَلَیٰ خُفَّیْہِ )) [2] ’’ہاں میں نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشاب کرنے کے بعد وضو فرمایا اور اپنے موزوں پر مسح کیا۔‘‘
Flag Counter