Maktaba Wahhabi

281 - 447
’’معالم السنن للخطابي‘‘ (۱/۱۲۱) ’’عمدۃ الرعایۃ حاشیۃ شرح الوقایۃ‘‘ (بحوالہ تحفۃ الأحوذي: ۱/ ۳۳۵) اور ’’رد المحتار حاشیۃ درّ مختار‘‘ (۱/ ۲۷۸) میں بھی فقہاے احناف کا فتویٰ یہی مذکور ہے کہ جرابوں پر مسح کرنا جائز ہے۔ لفظِ جراب کی لغوی تحقیق: جراب ایک معروف چیز ہے، لیکن بعض لوگ بلا وجہ اسے ایسے معنوں میں لینے لگتے ہیں کہ جسے تشدّد اور غلو کہا جاسکتا ہے، جیسے کوئی کہہ دیتا ہے کہ جراب سے چمڑے کی جرابیں مراد ہیں، حالانکہ ان کے لیے تو حدیث شریف حتیٰ کہ بخاری و مسلم میں ’’خُفَّین‘‘ کا لفظ موجود ہے، لہٰذا جراب سے چمڑے کی جرابیں مراد لینا لغت سے نا واقفیت کا نتیجہ ہے، لہٰذا آئیے اس لفظ کی تھوڑی سی لغوی تحقیق کریں، تاکہ اصل حقیقت تک پہنچا جاسکے۔ چنانچہ عربی کی درمیانی مگر معروف و متداول ڈکشنری ’’المنجد‘‘ (ص: ۸۴) اور ’’قاموس المحیط فیروز آبادی‘‘ (۱/ ۴۷ ) میں لکھا ہے: ’’اَلْجَوْرَبُ: لَفَافَۃُ الرِّجْلِ‘‘ ’’جراب پاؤں کا لفافہ یعنی پاؤں کو لپیٹنے کے لیے ہوتی ہے۔‘‘ ماہرِ لغت علامہ احمد رضا دمشقی ’’معجم متن اللغۃ‘‘ نامی پانچ ضخیم جلدوں پر مشتمل ڈکشنری (۱/ ۴۹۹، ۵۰۰) میں لکھتے ہیں: ’’جو رب پاؤں پر لپیٹے جانے والے لفافے کو کہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک فارسی لفظ ’’گورِپا‘‘ سے معرّب ہے، جس کا معنیٰ ’’پاؤں کی قبر‘‘ ہے۔‘‘ پندرہ جلدوں پر مشتمل ’’لسان العرب لابنِ منظور‘‘(۱/ ۲۶۳) میں لکھا ہے: ’’اَلْجَرَابُ وِعَائٌ مَعْرُوْفٌ‘‘ ’’جراب ایک معروف ظرف ہے۔‘‘ صاحبِ ’’عون المعبود‘‘ اور ’’تحفۃ الأحوذي‘‘ نے امام سیوطی رحمہ اللہ اور امام ابوبکر ابن العربی رحمہ اللہ سے نقل کیا ہے: ’’اَلْجَوْرَبُ غَشَاۃٌ لِلْقَدَمِ مِنْ صُوْفٍ یُتَّخَذُ لِلدِّفْئِ وَھُوَالثَّخِیْنُ‘‘[1] ’’جراب پاؤں پر چڑھانے کا ایک پَردہ ہوتا ہے، جو پاؤں کو گرم رکھنے کے لیے اُون کا
Flag Counter