Maktaba Wahhabi

76 - 447
آئیے اس کی تفسیر و ترجمے پر مختصر سی نظر ڈالتے چلیں، جس میں دونوں طرح کے استدلال آجائیں گے۔ اہلِ کتاب کا کھانا: 1۔اللہ تعالیٰ نے اہلِ کتاب کا کھانا ہمارے لیے اور ہمارا ان کے لیے حلال قرار دیا ہے، جو اس بات کا ثبوت ہے کہ ہمارے اور ان کے درمیان کھانے پینے میں کوئی جُھوٹ جھاٹ اور چُھوت چھات نہیں۔ ہم ان کے ساتھ کھا سکتے ہیں اور وہ ہمارے ساتھ کھا پی سکتے ہیں۔ اکثر علماے تفسیر کے نزدیک یہاں کھانے سے مُراد ان کے ذبح کردہ جانور کا گوشت ہے۔ معلوم ہوا کہ یہودی اور عیسائی کا ذبیحہ مسلمان کے لیے بھی کھانا جائز و حلال ہے اور اللہ تعالیٰ کو ان کا طریقۂ ذبح تومعلوم ہی ہے، لہٰذا بعض اہلِ علم کے نزدیک تو ان کا ذبیحہ مطلقاً حلال ہے۔ البتہ حضرت علی، ام المومنین حضرت عائشہ، عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم اور امام طاؤس و حسن بصری رحمہ اللہ کے نزدیک اگر انھوں نے ذبح کرتے وقت غیر اللہ کا نام لیا ہو تو اس کا کھانا جائز نہیں، انھوں نے اس بات پر سورت انعام کی آیت (۱۲۱) سے استدلال کیا ہے، جس میں ارشادِ الٰہی ہے: {وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ} ’’اور (بہ وقتِ ذبح) جس ذبیحے پر اللہ تعالیٰ کا نام نہ لیا گیا ہو، اُسے نہ کھاؤ، کیوں کہ ایسا کرنا فسق ہے۔‘‘ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک ایسا ذبیحہ حرام تو نہیں، البتہ مکروہ ہے، جبکہ دوسرے اکثر علما ان کے ذبیحے کو مطلقاً حلال مانتے ہیں، کیوں کہ امام عطا رحمہ اللہ کے بقول اللہ تعالیٰ کو معلوم تھا کہ وہ کِس طرح ذبح کرتے اور بہ وقتِ ذبح کیا کہتے اور کس کا نام لیتے ہیں۔ ذبیحے کے علاوہ ان کے دوسرے کھانے مثلاً پھل اور گندم وغیرہ کا کھانا بالاتفاق حلال و جائز ہے، کیوں کہ ان کے تو کِسی مسلم یا غیر مسلم کی ملکیت میں ہونے سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔ ان کے تیار کردہ کھانوں کو بھی جائز قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ جب ذبیحہ حلال ہے، جس کا عقیدہ و دین سے تعلق ہے تو پھر ان کا تیار کردہ کھاناکیسے حلال نہیں ہوسکتا کہ جس کا عقیدہ و دین اور بسم اللہ پڑھنے یا تکبیر پڑھنے سے کوئی تعلّق ہی نہیں، جب کہ مجوسی یا آتش پرست چونکہ ایک شاذ قول سے قطعِ نظر تمام علما کے مشہور قول کے مطابق اہلِ کتاب
Flag Counter