Maktaba Wahhabi

77 - 447
نہیں ہیں، لہٰذا نہ ان کا ذبیحہ حلال ہے اور نہ اُن کی عورتوں سے نکاح جائز ہے۔ [1] اہلِ کتاب کے ذبیحے اور دیگر کھانوں کے جائز ہونے اور انھیں کھانے کی عام اجازت دینے سے پہلے اللہ تعالیٰ نے {اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ} کا اعادہ فرمایا ہے کہ ’’آج تمھارے لیے تمام پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئی ہیں۔‘‘ اس سے پتا چلتا ہے کہ اہلِ کتاب اگر طہارت اور پاکیزگی کے ان قوانین کی پابندی نہ کریں، جو شریعت کے نقطۂ نظر سے ضروری ہیں یا پھر ان کے کھانے میں حرام چیزیں شامل ہوں، تو پھر ان کا کھانا ہرگز جائز نہ ہوگا۔ مثلاً: اہلِ کتاب میں سے کِسی کے دستر خوان پر کسی حرام جانور کا گوشت ہو، شراب وغیرہ مشروب ہو تو وہ ہرگز حلال نہیں ہوگا۔ [2] اہلِ کتاب عورتوں سے نکاح: 2۔ اسی آیت کے دوسرے حصے ’’ان (اہلِ کتاب) کی عورتیں بھی تمھارے لیے حلال ہیں۔‘‘ اس سے بھی ان کے جُھوٹے کے پاک ہونے پر استدلال کیا گیا ہے کہ جب ان کی عورتوں سے نکاح جائز ہے تو ان کا جُھوٹا کیسے ناپاک ہو سکتا ہے؟ پھر عام علماے دین کے نزدیک کِسی کے جُھوٹے، اس کے پسینے اور اس کے لعابِ دہن کا حکم ایک ہی ہے اور کسی بھی شوہر کا اپنی بیوی کے پسینے سے پوری طرح بچے رہنا غیر معقول بلکہ ایک محال امر ہے۔ اس کے باوجود اللہ تعالیٰ نے اور اہلِ علم میں سے کسی نے اہلِ کتاب بیوی کے پسینے کے لگ جانے سے غسل واجب قرار نہیں دیا، بلکہ صرف اسی شکل میں غسل واجب ہے، جس میں مسلمان بیوی سے واجب ہوتا ہے۔ اس طرح بھی اہلِ کتاب غیر مسلم کے جُھوٹے کو پاک قرار دیا گیا ہے۔ آگے بڑھنے سے پہلے یہیں ہم ایک اہم بات کی طرف بھی اشارہ کر دیں کہ اللہ تعالیٰ نے غیر مسلم اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح صرف حلال و جائز قرار دیا ہے، مگر یہ مستحسن وپسندیدہ فعل نہیں ہے، لہٰذا اگر کسی کو کسی وجہ سے اہلِ کتاب عورت سے نکاح کرنا ہی پڑجائے تو اسے اپنے مذہب و عقیدہ اور خاص طور پر اپنی اولاد کے مذہب و عقیدے کی بھی فکر کر لینی چاہیے کہ کہیں جذبات کے بہاؤ میں
Flag Counter