Maktaba Wahhabi

80 - 447
(( أَللّٰہُمَّ اشْہَدْ ))[1] ’’اے اللہ گواہ رہنا۔‘‘ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ایک عیسائی عورت کے برتن سے لائے گئے پانی کے ساتھ وضو کا ذکر امام المحدثین حضرت امام بخاری رحمہ اللہ نے بھی کیا ہے۔ [2] غیر اہلِ کتاب کفّار ومُشرکین کا جُھوٹا: جہاں تک غیر اہلِ کتاب کفّار و مشرکین کے جھوٹے کا تعلق ہے تو اسے بھی جائز قرار دیا گیا ہے، کیوں کہ صحیح بخاری ومسلم سمیت دیگر کتبِ حدیث میں یہ واقعہ مذکور ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم نے ایک مشرک عورت کے مشکیزے سے وضو فرمایا تھا۔ [3] امام قرطبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ کفّار و مشرکین جو اہلِ کتاب نہیں، ان کا پکایا ہوا کھانا کھانے میں بھی کوئی مضائقہ نہیں، بشرطیکہ وہ کھانا گوشت نہ ہو، جسے انھوں نے خود ذبح کیا ہو، کیوں کہ غیر اہلِ کتاب کا ذبیحہ حلا ل نہیں ہے۔ [4] دوسرے عام کھانے کے پاک اور حلال ہونے پر اکثر علما کا اتفاق ہے، بشرطیکہ وہ کسی حرام چیز پر مشتمل نہ ہو اور جس برتن میں اسے پکایا اور رکھا گیا ہو، وہ بھی ظاہری نجاست سے پاک ہو۔ فقہ حنفی کی معتبر کتب میں بھی کفّار کے جُھوٹے کو پاک قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری جس کا عربی نام ’’الفتاویٰ الہندیۃ‘‘ ہے اور مصر سے شائع ہوا ہے، اس کی جلد اوّل (ص: ۲۲) میں مذکور ہے: (( سُؤْرُ الْآدَمِيِّ طَاہِرٌ، وَیَدْخُلُ فِیْہِ الْجُنُبُ وَالْحَائِضُ وَالنُّفَسَآئُ وَالْکَافِرُ )) ’’آدمی کا جُھوٹا پاک ہے اور اِس حکم میں جنبی مَرد و زن، حیض و نفاس والی عورتیں اور کافر سب شامل ہیں۔‘‘ نیز دُرّ مختار میں ہے: (( فَسُؤْرُ اْلآدَمِيِّ مُطْلَقًا، وَلَوْ جُنُباً أَوْ کَافِراً، طَاہِرٌ ))[5] ’’آدمی کا جھُوٹا مطلقاً پاک ہے، چاہے وہ جنبی ہو یا کافر۔‘‘
Flag Counter