Maktaba Wahhabi

49 - 56
چند شبہات کا حل آج سے چند ماہ پہلے ا س موضوع پر چند گذارشات "مجلہ رحیق" میں پیش کرنے کا موقع ملا تھا۔ بریلوی حضرات کے خیالات اس موضوع پر معلوم ہیں مولانا احمد رضا خاں صاحب نے فتاویٰ رضویہ کی پہلی جلد میں انبیاء علیہم السلام کی زندگی کو جسمانی اور دنیوی قرار دیا ہے، لیکن ان حضرات کے خیالات عموماً ولائل کے بجائے جذبات پر مبنی ہوتے ہیں اس لیے علمی حلقوں میں اس کا کوئی خاص اثر نہیں ہوتا۔ خود مولانا احمد رضا خاں صاحب جب اس قسم کے مسائل پر لکھتے ہیں تو استدلال کے بجائے مخالف پر طعن وتشنیع اور الزامات سے حملہ آور ہوتے ہیں وہ مثبت طریق پر بہت کم لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ علم ونظر کے حلقوں میں ان بزرگوں کے ارشادات کو چنداں اہمیت نہیں دی جاتی حضرات علماء دیوبند کا مقام اس سے بالکل مختلف ہے ان میں محقق اہل نظر ہیں دلائل پر ان کی نظر ہے اپنے مسلک کی حمایت میں ان کا مدار جذبات پر نہیں ہوتا لیکن مجھے تعجب ہوا کہ مسئلہ حیات ، حیات انبیاء علیہم السلام میں حضرت مولانا حسین احمد رحمہ اللہ ، حضرت مولانا محمد قاسم رحمہ اللہ صاحب نانوتوی اور بعض دوسرے اکابر دیوبند کی بھی تقریباً وہی رائے تھی جو مولانا احمد رضا خاں صاحب بریلوی کی تھی۔ پھر مزید تعجب ہوا کہ بعض حضرات نے حیات انبیاء کی اس صورت کو اجماعی مسئلہ قرار دیا ہے حالانکہ یہ دعوی ٰ تحقیق اور انصاف دونوں کے منافی ہے بلکہ راقم الحروف کا خیال ہے کہ اجلہ دیوبند بھی اس مسئلہ میں ان حضرات سے متفق نہیں میری گذارشات شائع ہونے کے بعد ان گذارشات کی تائید بعض دیوبندی جرائد نے بھی فرمائی۔ جن احباب نے اختلاف فرمایا وہ بھی دلائل اور تحقیق کی بنا پر نہیں، بلکہ اساتذہ کی جلالت قدر پر اعتماد اور جمود کی بنا پر فرمایا اس کے باوجود انہی بزرگوں کے ذوق علم و تحقیق کی بنا پر پہلے بھی چند پریشان خیالات مقتدر مجلہ"رحیق" کی نذر ہوئے اور آج کی صحبت میں جو عرض ہورہاہ ے اس کا مقصد بھی یہی ہے ائمہ سنت اور اہل تحقیق اکابر کی روش کے پیش نظر ان مسائل پر غور فرمایا جائے حضرت شاہ ولی اللہ اور ان کے ابناؤ احفاد کےساتھ محبت اور ان کے تحقیقی
Flag Counter