وقت ہوا تو انھوں نے بغیر وضو نماز پڑھ لی اور جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تو انھوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے یہ واقعہ بیان کیا تو اس پر تیمم کی آیت نازل ہوئی۔ حضرت اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ نے کہا،(اے عائشہ)! اللہ تعالیٰ تجھے بہترین بدلہ دے۔ اللہ کی قسم! آپ کسی پریشانی میں مبتلا ہوتی ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کے لیے اس سے نکلنے کی صورت بنا دیتا ہے اور وہ چیز مسلمانوں کے لیے باعث برکت بنتی ہے۔ [1]
ان صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے طہارت کا ذریعہ بننے والی چیز نہ ملنے کی صورت میں بغیر طہارت کے نماز پڑھ لی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہ تو اس کو ناپسند کیا نہ نماز لوٹانے کا حکم فرمایا۔ امام نووی رحمہ اللہ فرماتے ہیں یہ قوی ترین قول ہے۔ [2]
مریض کی طہارت کا طریقہ
( مریض کے لیے بھی واجب ہے کہ پانی سے طہارت حاصل کرے،حدثِ اصغر کی صورت میں وضو اور حدثِ اکبر کی صورت میں غسل کرے۔
( اگر وہ پانی استعمال کرنے سے عاجز ہو یا پانی کے استعمال سے مرض میں اضافہ یا صحت یابی میں تاخیر کا اندیشہ ہو تو وہ تیمم کر لے۔
( تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک بار پاک زمین پر مارکر ان میں پھونک مارے اور پھر دونوں ہاتھوں سے سارے چہرے اور پھر دونوں ہاتھوں کا ایک دوسرے پر مسح کرے۔
( اگر کوئی مریض ازخود طہارت حاصل نہ کر سکتا ہو تو کوئی دوسرا شخص اسے وضو یا تیمم کرا دے۔
|