اپنے دور میں ان لوگوں سے قتال کیا جنھوں نے نماز اور زکاۃ میں فرق کر کے زکاۃ ادا کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ آپ رضی اللہ عنہ نے فرمایا:
((وَاللّٰهِ لَأُقَاتِلَنَّ مَنْ فَرَّقَ بَيْنَ الصَّلاةِ وَالزَّكَاةِ))
’’اللہ کی قسم! میں ان لوگوں سے ضرور قتال کروں گا جو نماز اور زکاۃ کے درمیان فرق کریں گے۔‘‘[1]
اور اس طرح اس امر پر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کا اجماع ہو گیا کہ زکاۃ ادا کرنے سے قولاً یا عملاً انکار دراصل اسلام سے خروج کا باعث ہے۔
زکاۃ کی مشروعیت کی حکمت
زکاۃ کی فرضیت میں بہت سی حکمتیں،مصلحتیں اور عظیم مقاصد ہیں جو کتاب و سنت کی ان آیات و احادیث پر غور کرنے سے سامنے آتے ہیں،جن میں زکاۃ ادا کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ جس کی مثال سورئہ توبہ کی وہ آیت ہے،جس میں مستحقین زکاۃ کا ذکر آیا ہے،اسی طرح وہ آیات اور احادیث جن میں اعمال خیر میں مال خرچ کرنے کی ترغیب دی گئی ہے۔ زکاۃ کی چند حکمتیں درج ذیل ہیں:
( زکاۃ ادا کرنے سے تزکیہ نفس اور دل پر غلطیوں اور گناہوں سے پیدا ہونے والے زنگ کا ازالہ ہو جاتا ہے اور بخل و کنجوسی کی وجہ سے اس کی روح پر پیدا ہونے والے برے اثرات ختم ہو جاتے ہیں،جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا﴾
’’آپ ان کے اموال سے صدقہ لے کر اس کے ذریعے سے ان کے اموال کو پاک
|