Maktaba Wahhabi

208 - 276
لیے کافی ہو،اگر ایسا مسافر کسی غرض کی خاطر قیام پذیر ہے تب بھی اسے زکاۃ دی جا سکتی ہے،اگرچہ اسے اپنی غرض پوری کرنے کے لیے کافی عرصہ درکار ہو۔ زکاۃ تقسیم کرتے وقت ان آٹھوں قسموں کو بیک وقت زکاۃ دینا ضروری نہیں،بلکہ حاجت اور ضرورت کے تحت حکمران،اس کا نائب یا زکاۃ دینے والا اپنی صوابدید سے ان میں سے بعض قسموں پر بھی صرف کر سکتا ہے۔ زکاۃ ادا کرنے کے فائدے ( اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کی بجاآوری اور اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کو مال کی محبت پر ترجیح دینے کا اظہار۔ ( معمولی عمل کے مقابلے میں اس سے کئی گنا زیادہ ثواب کا حاصل ہونا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿ مَّثَلُ الَّذِينَ يُنفِقُونَ أَمْوَالَهُمْ فِي سَبِيلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ أَنبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِي كُلِّ سُنبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍ ۗ وَاللّٰهُ يُضَاعِفُ لِمَن يَشَاءُ﴾ ’’جو لوگ اللہ کی راہ میں اپنا مال خرچ کرتے ہیں،ان کی مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ بویا جائے جس سے سات بالیاں اگیں اور ہر بالی میں سو سو دانے ہوں اور اللہ جس کے لیے چاہے اس کا اجر اس سے زیادہ بڑھا دیتا ہے۔‘‘[1] ( صدقہ و زکاۃ ایمان کی دلیل اور اس کا ثبوت ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے: ((وَالصَّدَقَةُ بُرْهَانٌ)) ’’اورصدقہ (ایمان کی) قاطع اور واضح دلیل ہے۔‘‘[2]
Flag Counter