Maktaba Wahhabi

281 - 276
بینکوں کے ساتھ لین دین کا معاملہ بینکوں کے ساتھ،مشروط و محدود فائدے کے لیے،قرض کا لین دین کرنا،جیسا کہ دو فیصد اس سے زیادہ یا کم شرح مقرر کرنا سود کی حرام کردہ اقسام میں سے ہے۔ شیخ حسن عبداللہ امین اپنی کتاب ’’الودائع المصرفیۃ النقدیۃ واستثمارھا فی الإسلام‘‘ کے صفحہ 280پر لکھتے ہیں اور شیخ عبداللہ خیاط نے بھی اسے اپنے مقالہ میں نقل کیا ہے: بینکوں میں رکھی جانے والی رقوم میں اصل فائدہ تو وہی زائد نفع ہے جو امانت رکھنے والے مشروط طورپر وصول کرتے ہیں،یہ صورت جیسے کہ فقہ و شریعت میں قرض تصور ہوتی ہے،اسی طرح یہ بینک کے فائدہ کی وجہ سے (کیونکہ بینک بھی آگے کسی کو اضافہ کی شرط کے ساتھ قرض کے طورپر دیتا ہے) وقت مقرر تک قرض کے عوض زیادتی بھی سمجھی جاتی ہے جو واضح طور پر سود ہے۔ تو زائد مشروط فائدہ،رقوم رکھنے والے کھاتہ دار وصول کریں یا بینک دوسروں کو قرض دے کر حاصل کرے،سود ہی ہے،بلکہ اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں،کیونکہ دور جاہلیت کی سود کی دو صورتوں میں یہ وہ صورت ہے جو اس دور میں رائج تھی اور قرآن نے قطعی طور پر اسے حرام قرار دیا ہے۔ فرمان الٰہی ہے: ﴿وَأَحَلَّ اللّٰهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا﴾ ’’اللہ نے تجارت کو حلال اور سود کو حرام قرار دیا ہے۔‘‘[1]
Flag Counter