Maktaba Wahhabi

143 - 199
وہ آیات جو منسوخ کر دی گئیں ان سے مراد یاتو وہ وحی ہے جو قرآن سے پہلے نازل کی گئی، مثلاً: تورات، زبور اورانجیل کی اصل وحی کی شکل میں اورمذکورہ بالا آیت کا مطلب ہو گا کہ وہ سابقہ کلامِ وحی کو فراموش نہیں ہونے دیتا بلکہ اسے بہتر یایکساں کلام سے تبدیل کردیتا ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تورات، زبور اورانجیل کی جگہ قرآن مجید نے لے لی ہے۔ اگر ہم مذکورہ بالا قرآنی آیت میں عربی لفظ ’’آیت‘‘ سے مراد آیات قرآنی لیں اور سابقہ کتب وحی نہ لیں تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کوئی آیت قرآنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس وقت تک منسوخ نہیں کی گئی جب تک اسے کسی بہتر یا ویسی ہی آیت سے تبدیل نہیں کردیا گیا۔ اس سے یہ بات بھی واضح ہوئی کہ بعض قرآنی آیات جو پہلے نازل کی گئی تھیں انھیں بعد میں نازل ہونے والی آیات سے تبدیل کردیا گیا۔ میں ان دونوں تعبیرات سے اتفاق کرتا ہوں۔ بعض مسلمان اور اکثر غیر مسلم دوسری تعبیر سے غلط طورپر یہ مطلب اخذ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کی بعض ابتدائی آیات منسوخ کردی گئی تھیں اور وہ آج ہم پر لاگو نہیں ہوتیں کیونکہ بعد میں نازل ہونے والی آیات ، یعنی ناسخ آیات نے ان کی جگہ لے لی۔ یہ گروہ یہ غلط عقیدہ بھی رکھتا ہے کہ یہ آیات باہم متضاد ہیں۔ آیئے ایسی چند مثالوں کا جائزہ لیں۔ قرآن کا چیلنج بعض مشرکین عرب یہ الزام لگاتے تھے کہ محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود یہ قرآن گھڑ لیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان عربوں کو سورۂ بنی اسرائیل کی مندرجہ ذیل آیت میں چیلنج کیا۔ ﴿قُل لَّئِنِ اجْتَمَعَتِ الْإِنسُ وَالْجِنُّ عَلَىٰ أَن يَأْتُوا بِمِثْلِ هَـٰذَا الْقُرْآنِ لَا يَأْتُونَ
Flag Counter