Maktaba Wahhabi

161 - 199
شخص کی زبان جس کی طرف یہ غلط نسبت کرتے ہیں، عجمی ہے جبکہ یہ (قرآن) تو فصیح عربی زبان ہے۔‘‘ [1] ایک ایسا شخص جس کی مادری زبان غیر ملکی تھی اور جوعربی کے ٹوٹے پھوٹے الفاظ میں بمشکل عربی میں بات کرسکتا تھا، قرآن مجید کا ماخذ کیسے بن سکتا تھا جو خالص ، فصیح و بلیغ اور شستہ عربی زبان میں ہے؟ یہ سمجھنا کہ کسی لوہار نے(نعوذ باللہ) نبیٔ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو قرآن سکھایا، ایسے ہی ہے جیسے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ چین سے انگلستان نقل مکانی کرنے والے ایک شخص نے جو مناسب انگریزی بھی نہیں جانتا تھا، شیکسپیئر کو پڑھایا یا لکھایا۔ ورقہ بن نوفل کا کردار محمدصلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنہاکے رشتے دار ورقہ سے پڑھا،حالانکہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے یہودی اور عیسائی علماء سے روابط بہت محدود تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جس نمایاں ترین عیسائی سے واقفیت رکھتے تھے، وہ ورقہ بن نوفل نامی نابینا شخص تھے جو نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پہلی زوجۂ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ایک رشتے دار تھے۔ وہ اگرچہ عربی النسل تھے لیکن انھوں نے عیسائی مذہب اپنالیا تھا اور وہ عہد نامہ جدید سے اچھے خاصے واقف تھے۔ نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صرف دوبار ان سے ملاقات ہوئی۔ پہلی مرتبہ اس وقت جب ورقہ (اعلان نبوت سے قبل) کعبۃ اللہ میں عبادت کررہے تھے اورانھوں نے نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر وفور محبت سے بوسہ دیا۔ دوسری ملاقات اس وقت ہوئی جب نبیٔ کریم صلی اللہ علیہ وسلم پہلی وحی کے نزول کے بعد ورقہ بن نوفل سے ملنے گئے۔ اس واقعے کے تین سال بعدورقہ کا انتقال ہوگیا جبکہ نزول کا سلسلہ تقریباً 23برس جاری رہا۔ یہ مفروضہ کہ قرآن مجید کی وحی کا ذریعہ ورقہ بن نوفل تھے، قطعی مضحکہ خیز مفروضہ ہے۔
Flag Counter