Maktaba Wahhabi

189 - 199
’’فرشتے اور روح القدس (جبریل) اوپر اس کی طرف چڑھیں گے ایسے دن میں جس کی مقدار پچاس ہزار سال ہے۔‘‘ [1] ان آیات کا عمومی مطلب یہ ہے کہ اللہ کے وقت کا موازنہ زمینی وقت سے نہیں کیا جاسکتا۔ اس کی مثالیں زمین کے ایک ہزار سال اور پچاس ہزار سال سے دی گئی ہیں۔ بالفاظ دیگر اللہ کے نزدیک جو ایک دن ہے وہ زمین کے ہزاروں سال یا اس سے بھی بہت زیادہ عرصے کے برابر ہے۔ ’’یوم‘‘کے معنی ان تینوں آیات میں عربی لفظ ’’یوم‘‘ استعمال کیا گیا ہے جس کا مطلب ’’ایک دن‘‘ کے علاوہ ’’طویل عرصہ ‘‘یا’’ ایک دور‘‘ بھی ہے۔ اگرآپ یوم کا ترجمہ عرصہ(Period) کریں تو کوئی اشکال پیدا نہیں ہوگا۔ سورۂ حج میں فرمایا گیا ہے: ﴿وَيَسْتَعْجِلُونَكَ بِالْعَذَابِ وَلَن يُخْلِفَ اللّٰهُ وَعْدَهُ ۚ وَإِنَّ يَوْمًا عِندَ رَبِّكَ كَأَلْفِ سَنَةٍ مِّمَّا تَعُدُّونَ﴾ ’’یہ لوگ عذاب کے لیے جلدی مچارہے ہیں، اللہ ہرگز اپنے وعدے کے خلاف نہ کرے گا، مگر تیرے رب کے ہاں ایک دن تمھاری گنتی کے حساب سے ایک ہزار برس کے برابر ہے۔‘‘ [2] جب کافروں نے یہ کہا کہ سزا میں دیر کیوں ہے اوراس کا مرحلہ جلد کیوں نہیں آتا تو قرآن میں ارشاد ہواکہ اللہ اپنا وعدہ پورا کرنے میں ناکام نہیں رہے گا، تمھاری نظر میں جو عرصہ ایک ہزار سال کو محیط ہے، وہ اللہ کے نزدیک ایک دن ہے۔
Flag Counter