Maktaba Wahhabi

55 - 129
ہیں۔ اپنی خوش قسمتی پر ناز کرتے ہیں۔ اور اس پر اس کی حمدوشکر سے لبریز ہوتے ہیں۔ لک الحمد حتی ترضی ولک الحمد اذا رضیت تیری حمد ہے یہاں تک کہ تو راضی ہو جائے اور تیری ہی حمد ہے جب تو راضی ہو جائے۔ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ الَّذِیْ ھَدٰنَا لِھٰذَا وَمَا کُنَّا لَنَھْتَدِیَ لَوْلَا اَنْ ھَدَانَ اللّٰہ۔ اللہ کی حمد ہے جس نے ہمیں اس راہ پر چلایا اور یہ ہمارے بس میں نہ تھا کہ ہم خود چلتے اگر اللہ (ہمارا ہاتھ پکڑے ہمیں )نہ چلاتا۔ جس کو جتنا نصیب ہو جائے وہ متقی ہے اس کے ظاہر و باطن میں اِنقلاب آجاتا ہے۔ اس کی دنیا ہی بدل جاتی ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ جو کہتا ہے وہ کرتا ہے جس طرح وہ رکھتا ہے اس طرح رہتا ہے ایک طرف رضا بالحکم پر کار بند رہتا ہے۔ دوسری طرف رضا بالقضاء کی کیفیت میں جیتا ہے ایک طرف اس ایمان کے نتیجے میں جس کی تلاوت کو محبت رگ و ریشے میں اُتار دیتی ہے۔ (ایمانا یباشر قلبی) رَضِیْتُ بِاللّٰہِ رَبًّا وَبِالْاِسْلَامِ دِیْنًا وَبِمُحَمَّدٍ صلی اللّٰه علیہ وسلم نَبِیًّا کا مقام حاصل ہوتا ہے۔ دوسری طرف یقینا صادقا حتی اعلم انہ لن یعین الا ما کسبت لی ورضا لھا مسمت لی سچا یقین کہ مُجھ پر ہر گز کچھ نہ پڑے گا سوائے اس کے جو تو نے لِکھ دیا ہے اور جو تو دے اس پر راضی ہوں کی پُکار نکلتی ہے تو وہ اقرار کرتا اَللّٰھُمَّ لَا مَانِعَ لِمَا اَعْطَیْتَ وَلَا مُعْطِیَ لِمَا مَنَعْتا (جو تو دے اس کو روکنے والا کوئی نہیں۔ جو تو منع کر دے اس کو دینے والا کوئی نہیں۔ تقویٰ قلب کا فعل ہے امام غزالیؒ فرماتے ہیں جس نے تقویٰ اختیار کیا اس کے سارے تردّدات رفع ہو گئے اب وہ آرام سے جدھر چاہے سو رہے جو بات اصل تھی سو وہ ہو گئی اب وہ ہر خوف اور حزن سے مامون و محفوظ ہے۔ فَمَنِ اتَّقٰی وَاَصْلَحَ فَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ
Flag Counter