مولانا عنایت اللہ وارثی لکھتے ہیں کہ مسلمانوں کی سیاست کا مرکزی نقطہ روانی سے آدمی اختلاف کے بغیر ایک اللہ کا یقین اور اسی ایک ہی کامل مطلق اور خالص حاکمیت کا ایک مستقل عقیدہ ہے جس کی حاکمیت میں کسی دوسرے کے اشتراک، اختیار او رکسی قسم کی حصہ داری کا شائبہ تک نہ ہو۔ یہی فکری وحدت مسلمانوں کی عملی وحدت کی بھی ضامن ہے اور یہی نظریہ اسلام کے سارے سیاسی نظام اور اس کے آئین دستور کی بنیاد ہے ۔ اسلام اللہ کے علاوہ نہ کسی کو آئین سازی کا حق دیتا ہے نہ اللہ کے بغیر کسی کو اطاعت کا منصب عطا کرتا ہے اور نہ ہی یہ کسی غیر اللہ کی سیاست کی حاکمیت کو کسی صورت میں تسلیم کرتا ہے۔
(خدا ایک کیوں صفحہ نمبر138)
محبت الہی میں غیر اللہ کی بغاوت ؟
کلمہ طیبہ اِنسان کے بنائے ہوئے قوانین و ضوابط سے بغاوت اور حق کی پیروی کا سب سے بڑا اعلان ہے ایمان باللہ کا تقاضہ ہے۔ زندگی کے ہر شعبے میں اللہ کے احکامات کی پیروی و اطاعت کی جائے انگریزوں کی قائم شدہ عدالتوں میں اپنے مقدمات لے جانا باپ دادا اور خاندانی روایات کی پیروی کرنا لا دینی ہیں۔ ایسی تعلیم حاصل کرنا غیر اسلامی حکومتوں کی اطاعت کرنا اور اخلاقی و دینی لحاظ سے بے بہرہ لیڈروں کی رہنمائی تسلیم کرنا ایک مومن کا کام نہیں اللہ سے محبت کرنے والے بندوں کا کام نہیں ایمان باللہ اور محبت خداوندی اس بات کا متقاضی ہے کہ غیر اللہ کی اطاعت و فرمانبرداری کا علی الاعلان انکار کیا جائے اللہ رب العالمین کو حاکم اعلیٰ قانون ساز معلم اعظم اور حقیقی رہنما تسلیم کیا جائے۔
سیّد حامد علی کہتے ہیں۔
وہ جب لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہ۔۔۔۔۔۔اللہ کے سوا کوئی خدا نہیں تو نفس کہتا ہے غیر اللہ کی الوہیت و بندگی کا انکار کرنا اور پوری زندگی کو اللہ کی بندگی اور اس کے قانون والہانہ اطاعت میں دے دیتا ہے۔جو اپنے آپ کو خدائی بندگی میں فرما نہ دے ۔ قرآن اس دعوے ایمان کو تسلیم نہیں کرتا۔ (توحید اور شرک صفحہ550)
|