Maktaba Wahhabi

85 - 129
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی اور پھر یہ دُعا کی ۔ اللھم ات نفسی تقوھا وزکھا انت خیر من زکھا انت ولیھا ومولھا۔ الہی میرے نفس کو اس کا تقویٰ عطا فرما اور اس کو پاک کرنیوالا ہے تو ہی اس کا مالک اور مددگار ہے مختصر یہ ہے کہ تزکیہ نفس وہ حقیقت ہے جس کی وضاحت کیلئے سورۃ الشمس میں متعدد قسمیں کھا کر یہ حقیقت واضح کی گئی ہے کہ جس نے نفس کا تزکیہ کر لیا وہ دونوں جہانوں میں کامیاب و کامران ہو گیا تزکیہ کے لفظی معنی پاک کرنا اور نشوونما دینا ہے مقصود یہ ہے کہ نفس کو غلط انداز فکر فسق و فجور اور حبِ ماسویٰ سے پاک کیا جائے اور خشیت الہی سے تقوی کی بلندیوں تک پہنچایا جائے اس امر کے مقابلے میں مندرجہ آخری آیت میں فرمایا گیا ہے کہ وہ شخص نامراد ہوا جس نے اسے دبا دیا مراد یہ ہے کہ نفس اور ضمیر میں جو نیکی کرنے کی آواز پیدا ہوتی ہے اگر اس کو دبا کر برائی اور شر کے پردوں میں چھپا دیا جائے تو وہ شخص نامراد اور ناکام ہو گا۔ نفس ہمیشہ برائی کی طرف راغب کرتا ہے نفس انسان کا ایک ایسا ساتھی ہے کہ اس کے ساتھ ہر قسم کی بھلائی اور ملاطفت کے باوجود فطرتاً یہ برائی کی طرف ہی راغب کرتا ہے قرآن پاک میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے۔ اِنَّ النَّفْسَ لَاَمَّارَۃٌ بِّالسُّوْئِ بیشک نفس نو ضرور برائی کا حکم دیتا ہے۔ رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سلسلے میں صحابہ کرام رضی اللہ عنہ نے استفسار کیا ایسے رفیق کے بارے میں تمہارا کیا خیال ہے جس کا حال یہ ہو کہ اگر تم اس کا اعزاز و اکرام کرو، کھانا کھلاؤ کپڑے پہناؤ تو وہ تمہیں بلاؤ مصیبت میں ڈال دے اور اگر تم اس کی توہین کرو اور بھوکا ننگا رکھو تو تمہارے ساتھ بھلائی کا معاملہ کرے صحابہ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا یا رسول اللہ اس سے زیادہ برا ساتھی تو دنیا میں ہو ہی نہیں سکتا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تمہارا نفس جو تمہارے پہلو میں ہے وہ ایسا ہی ساتھی ہے ایک اور حدیث ہے کہ تمہارا سب سے بڑا دُشمن خود تمہارا
Flag Counter