Maktaba Wahhabi

89 - 277
اس حدیث کا معنی یہ ہے کہ کلمہ طیبہ کی شہادت دینے سے غیر اللہ کی عبادت کا انکار لازم آتاہے جیسے فوت شدگان کو پکارنا وغیرہ۔اور بڑے ہی تعجب کی بات ہے کہ کئی مسلمان اس کلمہ کو اپنی زبانوں سے توپڑھتے ہیں لیکن ان کے افعال اس کے معنی کے خلاف ہوتے ہیں جیسے غیر اللہ کو پکارنا وغیرہ۔ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ توحید اور اسلام کی اساس ہے اور پوری زندگی کا دستور ہے۔ اور اس کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ ساری عبادات صرف اللہ تعالیٰ کیلئے خاص کی جائیں،صرف اسی کو پکارا جائے،اسی کے سامنے انکساری کا اظہار کیا جائے اور صرف اسی کی شریعت کو اتھارٹی تسلیم کیا جائے۔ لاَ إِلٰہَ إِلاَّ اللّٰہُ اپنے پڑھنے والے کیلئے نفع بخش ہوتا ہے بشرطیکہ وہ اس کی ضد(شرک)سے اپنے دامن کو بچا کر رکھے۔اس کی مثال وضو کی ہے جو کہ بدستور باقی رہتا ہے جب تک کہ انسان وضو توڑنے والا کوئی کام نہ کرے۔چنانچہ وہ شخص کلمہ طیبہ کے معنی کو توڑنے والا اور مشرک تصور کیا جائے گا جو غیر اللہ کیلئے کوئی عبادت بجا لائے گا مثلا اللہ کے علاوہ کسی اور کو پکارنا یا اس کیلئے جانور ذبح کرنا یا اس کے نام کی نذر ماننا وغیرہ۔انتہی ‘’ إلٰہ’‘کا مفہوم شیخ الإسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ‘’إلٰہ’‘ کا معنی معبود ہے۔یعنی جس کی اطاعت کی جائے اور جوعبادت کا استحقاق رکھتا ہو۔اور اس کے مستحقِ عبادت ہونے کی وجہ یہ ہے کہ وہ ایسے اوصاف سے متصف ہے جن کا لازمی نتیجہ یہ ہے کہ وہ آخری درجہ کی محبت کا حقدار،وہی محبوب ہو اور انتہائی اطاعت اور فرمانبرداری کا اظہار اسی کے لئے ہو۔پس’’إلٰہ’‘ ہی وہ محبوب اور معبود
Flag Counter