Maktaba Wahhabi

107 - 589
توحیدِ ربوبیت کا اقرار ثابت ہوا، جس کے اقرار سے کوئی شخص کامل مومن ہوتا ہے۔ جو شخص ایک قسم کی توحید کا اقرار اور دوسری قسم کی توحید کا منکر ہے، وہ کافر ہے یا مشرک، بہر حال وہ مومن نہیں ہے۔ ایمان اس وقت تک درست رہتا ہے، جب تک اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کے برابر کسی سے محبت، الفت اور مودت نہ ہو۔ صاحبِ ’’تحریر‘‘ نے لکھا ہے: ’’معنی الحدیث لم یطلب غیر اللّٰه تعالیٰ، ولم یسع في غیر طریق الإسلام، ولم یسلک إلا ما یوافق شریعۃ محمد صلی اللّٰه علیہ وسلم ، ولا شک في أن من کانت ھذہ صفتہٗ فقد خلصت حلاوۃ الإیمان إلی قلبہ و ذاق طعمہ‘‘[1]انتھیٰ۔ [مذکورہ حدیث کا مطلب یہ ہے کہ جس شخص نے غیر اللہ سے کچھ نہ مانگا اور اسلام کے طریقے کے سوا کسی کی طرف کوشش نہ کی اور صرف اسی راہ پر چلا جو محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی شریعت کے مطابق اور موافق تھی، تو جو شخص اس خوبی کا مالک ہو، بلا شبہہ ایمان کی شیرینی اس کے دل میں پہنچ گئی اور اس نے اس کا مزا چکھ لیا] اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم سے محبت کا تقاضا: فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ﴾ [البقرۃ: ۱۶۵] [ اور وہ لوگ جو ایمان لائے، اللہ سے محبت میں کہیں زیادہ ہیں ] امام مالک رحمہ اللہ نے فرمایا ہے: ’’اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی محبت واجباتِ اسلام سے ہے۔ اس محبت کا تقاضا ہے کہ انسان اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کی اطاعت بجا لائے اور ان کی مخالفت ترک کر دے۔‘‘ لہٰذا جس کو یہ محبت حاصل ہو جاتی ہے، وہ اپنے اور بیگانے سے، جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ و سلم کا مخالف ہو، بے زار اور متنفر ہو جاتا ہے۔
Flag Counter