Maktaba Wahhabi

109 - 589
آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس کی فلاح کو اس کے صدق کے ساتھ مشروط کیا ہے، لہٰذا اگر صدق نہیں ہے تو فلاح بھی نہیں ہے۔ اعمال ایمان کا جزوِ لا ینفک ہیں : ایمان کی تصدیق اور اس پر صدق کا مطلب یہ ہے کہ جو منہ سے اقرار کیا ہے، وہ دل میں قائم و دائم ہو اور اعضا و جوارح سے عمل میں آئے۔ اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے وفد عبدالقیس والی حدیث میں اعمالِ اسلام پر لفظِ ایمان کا اطلاق کیا ہے اور اعمال کو ایمان قرار دیا ہے۔[1] (رواہ البخاري) اسی طرح ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے عورتوں کو عقل و دین میں ناقص اور کمزور قرار دیا ہے۔ پھر وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ ان کے دین کا نقص یہ ہے کہ وہ دوران حیض نماز نہیں اد اکرتیں اور روزہ نہیں رکھتیں اور ان کی عقل کا نقصان یہ ہے کہ ان کی گواہی مرد کے مقابلے میں نصف شمار ہوتی ہے۔[2] (متفق علیہ) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ عمل کے نقصان سے دین میں نقص اور کمزوری واقع ہوتی ہے۔ ایمان جامد نہیں ، بلکہ وہ کم اور زیادہ ہوتا رہتا ہے: کتبِ عقائد میں لکھا ہے کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔ جس طرح اطاعت کی زیادتی کے ساتھ ایمان بڑھ جاتا ہے، اسی طرح اطاعت میں کمی اور معاصی کے ارتکاب کی وجہ سے ایمان کم بھی ہو جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں فرمایا ہے کہ ایک نیک آدمی اور ایک فاسق آدمی دونوں برابر نہیں ہیں ۔ کیونکہ جو صالح ہے وہ کامل مومن ہے، جب کہ فاسق ناقص ایمان والا ہے۔ فرمانِ باری تعالیٰ ہے: ﴿ اَمْ حَسِبَ الَّذِیْنَ یَعْمَلُوْنَ السَّیِّاٰتِ اَنْ یَّسْبِقُوْنَا سَآئَ مَا یَحْکُمُوْنَ﴾ [العنکبوت: ۴] [یا ان لوگوں نے جو برے کام کرتے ہیں ، یہ گمان کر لیا ہے کہ وہ ہم سے بچ کر نکل جائیں گے، برا ہے جو وہ فیصلہ کر رہے ہیں ]
Flag Counter