Maktaba Wahhabi

112 - 589
نے پھر پوچھا: ’’گناہ کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’جب کوئی چیز تیرے دل میں کھٹکا پیدا کرے تو اسے ترک کر دے۔‘‘[1] (رواہ أحمد) مذکورہ حدیث سے معلوم ہوا کہ جس شخص کو گناہ برا نہیں لگتا، اس کے ایمان میں نقص ہے۔ نیز آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے گناہ کی بھی وضاحت فرما دی کہ جس بات سے دل میں تردو اور کھٹکا پیدا ہو، وہ گناہ ہے۔ اسی طرح عمرو بن عبسہ رضی اللہ عنہ نے بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے سوال کیا کہ ’’ایمان کیا ہے؟‘‘ تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے جواب دیا: ’’صبر و سماحت۔‘‘ یعنی ترکِ گناہ پر صبر کرنا اور اطاعت پر جواں مردی کا مظاہرہ کرنا۔ انھوں نے پھر دریافت کیا: ’’افضل ایمان کیا ہے؟‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’حسنِ اخلاق۔‘‘ [2] (رواہ أحمد) اس حدیث کے الفاظ ((خُلُقٌ حَسَنٌ)) میں ظاہر وباطن تمام مکارمِ اخلاق شامل ہیں ، جن کا مفصل بیان ہماری کتاب ’’مکارم الأخلاق‘‘ میں موجود ہے۔ افضل ایمان: معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم سے افضل ایمان کی بابت سوال کیا تو آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ((أَنْ تُحِبَّ لِلّٰہَ وَتُبْغِضَ لِلّٰہِ وَ تَعْمَلَ لِسَانَکَ فِيْ ذِکْرِ اللّٰہِ)) [3] (رواہ أحمد) یعنی تیری دوستی و دشمنی اللہ کے لیے ہو اور تو ہمیشہ زبان سے اللہ کا ذکر کرتا رہے۔ کلمہ گو بے نماز اور بے زکات سے جنگ: سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: ’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں کے ساتھ قتال کروں حتی کہ وہ گواہی دیں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں اور یقینا محمدصلی اللہ علیہ وسلم )اللہ کے رسول ہیں اور نماز قائم کریں اور زکات ادا کریں ۔ جب وہ ایسا کر لیں گے تو وہ اپنے خون و مال مجھ سے محفوظ کر لیں گے سوائے
Flag Counter