Maktaba Wahhabi

118 - 589
سے) میرے سابقہ گناہوں کی بخشش ہو جائے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا تو نہیں جانتا کہ اسلام (قبول کرنا) گذشتہ گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور ہجرت بھی اس (گناہ) کو مٹا دیتی ہے جو اس سے پہلے ہوا ہو اور حج بھی اس (گناہ) کو مٹا دیتا ہے جو اس سے پہلے سرزد ہوا ہے۔‘‘[1] (رواہ مسلم) اس سے معلوم ہوا کہ اسلام، ہجرت اور حج وہ اعمال ہیں ، جو گذشتہ گناہوں کو مٹا دیتے ہیں ۔ حدیث کے الفاظ کا تقاضا یہ ہے کہ انسان کے گناہ صغیرہ ہوں یا کبیرہ، اسلام قبول کرنے، ہجرت کرنے اور حج بجا لانے سے معاف ہو جاتے ہیں ۔ جہاں تک حقوق العباد کا تعلق ہے تو ممکن ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کو بھی معاف فرما دے اور وہ اس طرح کہ مظلوم کو جنت عطا کر کے راضی کر دے اور ظالم کو بخش دے۔ اسلام سے پہلے کفر ہوتا ہے، کلمہ شہادت پڑھ کر اسلام لانے سے وہ دور ہو جاتا ہے، جبکہ ہجرت اور حج اسلام لانے کے بعد ہوتے ہیں ۔ توانسان سے جو گناہ بحالتِ اسلام جہالت کے طور پر سرزد ہو تے ہیں ، ان کے معاف ہونے کی یہی تدبیر ہے کہ اگر گناہ گار بندہ دارا لحرب میں ہے تو امن کی صورت میں وہاں سے دار الاسلام کی طرف ہجرت کر جائے اور اگر ہجرت کا موقع نہ مل سکے تو اگر وہ استطاعت رکھتا ہو تو فریضۂ حج ادا کرے۔ حج کے قبول ہونے اور گناہوں کے معاف ہونے کی نشانی یہ ہے کہ حج کے بعد والی حالت اور زندگی سابقہ حالت اور زندگی سے عملی طور پر بہتر ہو جائے۔ اخلاصِ نیت: لیکن اگر کسی شخص کی ہجرت دنیا کے کسی مطلب اور مقصد کے حصول کے لیے ہو، جیسے کوئی مرد ہجرت کر کے جائے اور کسی عورت سے نکاح کرے یا عورت اس نیت سے ہجرت کرے کہ وہاں جا کر کسی مرد سے نکاح کر کے اس کی بیوی بنے تو پھر اس ہجرت کا کچھ ثواب نہیں ہے۔ جس طرح کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم کے دور میں ایک شخص نے ام قیس نام کی ایک عورت سے شادی کرنے کے لیے ہجرت
Flag Counter